
یوگنڈا پڑوسی ممالک میں جنگ اور عدم استحکام سے فرار ہو کر آنے والے 1.5 ملین سے زائد پناہ گزینوں اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس سال جنوری سے لے کر اب تک بھوک اور عدم غذائیت کے شکار 71,000 سے زائد پناہ گزین دو ممالک یعنی ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو [ڈی آر سی] اور جنوبی سوڈان سے یوگنڈا پہنچے ہیں۔
امریکہ خشک سالی، کووڈ-19 کی عالمی وباء اور جنگ سے پیدا ہونے والے خوراک کے عالمگیر بحران سے نمٹنے کی اپنی وسیع ترکوششوں کے ضمن میں یوگنڈا میں موجود پناہ گزینوں کو خوراک فراہم کرنے کے لیے خوراک کے عالمی پروگرام [ڈبلیو ایف پی] کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
15 جولائی کو امریکہ نے افریقہ کے لیے انسانی بنیادوں پر 592 ملین ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کیا۔ اِس امداد میں ڈبلیو ایف پی کو یوگنڈا میں ہنگامی بنیادوں پر خوراک فراہم کرنے کے لیے دیئے جانے والے 21 ملین ڈالر بھی شامل ہیں۔
یوگنڈا میں ڈبلیو ایف پی کے ڈائریکٹر، عبدالرحمان میگاگ نے 25 جولائی کو ٹویٹ کیا کہ”ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں اور ڈبلیو ایف پی آنے والے ہفتوں میں 217,000 سے زائد افراد کو خوراک اور غذائی کمی کو پورا کرنے والی اشیاء پہنچا رہا ہے۔” انہوں نے اس کام میں مدد کرنے پر امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے [یو ایس ایڈ] کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور جاپان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
ڈبلیو ایف پی کی ایک اور ٹویٹ میں یوگنڈا کے کاراموجا کے علاقے میں بھجوائے جانے والے مکئی کے 50 کلو گرام کے تھیلے دکھائے گئے ہیں۔ اس علاقے میں پچاس ہزار سے زائد افراد بھوک کا شکار ہیں اور نصف سے زائد بچوں کو شدید غذائی کمی کا سامنا ہے۔
🇺🇬in #Karamoja @WFP is rapidly scaling up operations in 6 of 9 district. Needs are growing and @WFP are reaching more than 217,000 people with food and nutrition supplements🍚🌾in the coming weeks. This is only possible thanks to @UNCERF @EUinUG @JapanEmb_Uganda @USAIDSavesLives pic.twitter.com/Nfzu5LXcdJ
— Abdirahman Meygag (@meygag61) July 25, 2022
ڈبلیو ایف پی کی امریکی مالی امداد سے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جائیں گے:-
- لگ بھگ83,845 افراد کے لیے اناج اور خوردنی تیل سمیت 1,508 میٹرک ٹن خوراک خریدی جائے گی۔
- تیرہ مقامات پر 4 ملین پناہ گزینوں کو خوراک کی فراہمی جاری رکھی جائے گی۔
- سال 2022 میں یوگنڈا آنے والے ہزاروں پناہ گزینوں اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو گرم کھانے فراہم کیے جائیں گے۔
حال ہی میں اعلان کردہ مالی امداد قرن افریقہ، ساحل کے خطے اور افریقہ کے دیگر علاقوں میں انسانی بنیادوں پر کیے جانے والے کاموں میں مدد گار ثابت ہوگی اور اس کے نتیجے میں شراکت کار افریقہ میں سات ملین پناہ گزینوں اور 25 ملین سے زائد اپنے اپنے ممالک میں دربدر ہونے والے افراد کی مدد کر سکیں گے۔
جون میں برلن میں خوراک کی سکیورٹی کی عالمی کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے دنیا میں خوراک کی سکیورٹی کے تحفظ کے لیے دنیا کے ممالک پر کوششوں میں تیزی لانے پر زور دیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2021 میں 193 ملین افراد کو خوراک کی شدید عدم سلامتی کا سامنا رہا۔ عالمی بنک کے کا کہنا ہے کہ روس کے یوکرین پر حالیہ حملے کے بعد مزید 40 ملین افراد خوراک کی شدید عدم سلامتی کا شکار ہو سکتے ہیں اور غربت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔
روس نے یوکرین کی زرعی زمینوں کو تباہ کر دیا ہے، اناج چوری کیا ہے اور بحیرہ اسود کے راستے سے خوراک کی ترسیل کو روک دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں سب سے زیادہ گندم اور مکئی پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہونے والے ایک ایسے ملک کو جو سورج مکھی کے بیجوں کے تیل کا دنیا کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملک بھی ہے، [دنیا سے] کاٹ دیا ہے۔

محکمہ خارجہ کے مطابق جس قسم کی خوراک کی عدم سلامتی کا افریقہ شکار ہے اس سے پناہ گزینوں اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو خاص طور پر نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ یہ بات خصوصی طور پر اِن ممالک پر صادق آتی ہے جن کا روسی اور یوکرینی درآمدات پر بھاری انحصار ہے۔
یوگنڈا میں امریکی سفیر نیٹلی براؤن نے حال ہی میں کہا کہ “امریکہ بھوک اور غذائیت کی کمی کو ختم کرنے اور دنیا بھر میں زیادہ پائیدار، مساوی، اور لچکدار خوراک کے نظام کی تعمیر میں اپنے حصے کا کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔”