
امریکی نیوی کے نئے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز کو جولائی میں سمندر میں اتارا گیا۔ یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ نامی اس جہاز کو صدر ٹرمپ نے ورجینیا کی نیوپورٹ نیوز بندرگاہ سے سمندر میں روانہ کیا۔
اس موقع پر صدر نے کہا، “یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے نیا، سب سے بڑا اور جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز ہے جو کہ امریکی طاقت اور وقار کی علامت ہے۔ امریکی طاقت کا ہم پلہ کوئی نہیں اور ہم دن بدن مزید بڑے، بہتر اور مضبوط ہو رہے ہیں۔”
اس جہاز کا نام امریکہ کے 38ویں صدر جیرالڈ آر فورڈ کے نام پر رکھا گیا ہے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز پر خدمات انجام دی تھیں۔ اس کا نیا ڈیزائن گزشتہ 40 برس میں طیارہ بردار جہازوں میں لائی جانے والی پہلی تبدیلی ہے اور یہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس “فورڈ کلاس” نامی نئی طرز کے جہازوں کا اولین جہاز ہے۔
یو ایس ایس فورڈ کو امریکی بحریہ کے زیرِ استعمال 10 ‘نمِٹز کلاس’ طیارہ بردار جہازوں میں شامل کیا گیا ہے۔ نمِٹز کلاس کو یہ نام دوسری جنگ عظیم میں بحرالکاہل کے لیے امریکی بیڑے کے کمانڈر، ایڈمرل چیسٹر ڈبلیو نمٹز کے نام کی مناسبت سے دیا گیا تھا۔

جدید ترین ٹیکنالوجی
اس نئے جہاز میں مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس میں طیاروں کو اڑانے میں مدد دینے والی منجنیقیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اس سے قبل طیارہ بردار بحری جہازوں میں پریشر یعنی دباؤ پیدا کرنے کے لیے بھاپ کا استعمال کیا جاتا تھا جس کی مدد سے طیاروں کو فضا میں چھوڑا جاتا تھا۔ یو ایس ایس فورڈ میں اس مقصد کے لیے برقی مقناطیسوں کا استعمال کیا گیا ہے جو طیارے کو زیادہ تیز رفتاری اور بہتر طریقے سے فضا میں چھوڑتے ہیں۔ یہ برقی مقناطیسی منجنیق اس قدر طاقتور ہے کہ نئے طیارہ بردار جہاز سے بھاری بھرکم اور زیادہ طاقت والے طیارے بھی اڑائے جا سکتے ہیں۔ (زیر نظر وڈیو میں بحریہ اس منجنیق کو تجرباتی گاڑی پر آزما رہی ہے۔)
ایک نیا جوہری ری ایکٹر برقی مقناطیس سمیت تمام جہاز کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ فورڈ کے ری ایکٹر، حجم میں چھوٹے مگر نمٹز کلاس جہازوں کے ری ایکٹروں کے مقابلے میں قریباً تین گنا زیادہ توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔
یو ایس ایس فورڈ کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ بحریہ اس میں جب چاہے نئی ٹیکنالوجی شامل کر سکتی ہے اور اسے مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھا جا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا، “یہ جہاز افق پر جہاں کہیں بھی نمودار ہو گا، اِس سے ہمارے اتحادی اطمینان و سکون سے رہیں گے جبکہ ہمارے دشمن خوف سے کپکپائیں گے کیونکہ سب جان جائیں گے کہ امریکہ آ رہا ہے اور امریکہ پوری قوت سے آ رہا ہے۔”