
جب شام کے رہنے والے محمد خیراللہ نے 1991 میں نیو جرسی کے ایک چھوٹے سے قصبے، پراسپیکٹ پارک میں بسنے کا فیصلہ کیا، تو یہ بات ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی کہ ایک روز وہ اس قصبے کے میئر بن جائیں گے۔ اُس وقت وہ 11ویں جماعت کے طالب علم تھے۔
امریکہ آنے سے قبل، خیراللہ کی زندگی کا مقصد جنگ سے اپنی جان بچانا تھا۔ 1980 میں شام کے اس وقت کے صدر حافظ الاسد کے خلاف پہلی بغاوت کے وقت، 5 سالہ خیراللہ اور ان کا خاندان شام سے بھاگ کر پہلے سعودی عرب پہنچا۔ اس کے گیارہ سال بعد، خلیج کی پہلی جنگ کے خاتمے پر، اس خاندان نے ایک بار پھر نقل مکانی کی۔ اس مرتبہ وہ امریکہ آئے۔
ہر بار جب خیراللہ ایک ملک سے دوسرے ملک گئے، انہیں ثقافتی دھچکہ لگا۔ لیکن امریکہ میں ان کی آمد، ایک انوکھا تجربہ ثابت ہوئی۔
خیراللہ بتاتے ہیں، “مجھے ایک ایسی ثقافت کا عادی ہونا پڑا جو مشرقِ وسطیٰ کی ثقافت سے مختلف تھی، اور مجھے ایک نئی زبان سیکھنی پڑی۔ اس لحاظ سے یہ انتہائی مشکل کام تھا۔ لیکن میرے خیال میں مجھے اس طرح وہ کچھ بننے میں مدد ملی جو کچھ میں آج ہوں۔”
انہیں وہ دن یاد ہے جب انھوں نے پہلی بار ایک ایسے کلاس روم میں قدم رکھا جس میں لڑکیاں بھی موجود تھیں۔ “میرے اللہ! یہ تو بڑی حیرانگی کی بات ہے!”
نیو جرسی کے اس قصبے کی زندگی میں بعض ایسے پہلو بھی تھے جو انہیں اپنے وطن کی یاد دلاتے تھے۔ ایک روز ہائی سکول جاتے ہوئے، انہیں ایک ایک سیاسی اشتہار نظر آیا جس پر ایک عربی نام لکھا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی وہ لمحہ تھا جب میرے دِل میں “اِس خیال کی داغ بیل پڑی” کہ ایک دن وہ بھی یہاں کوئی نہ کوئی قائدانہ کردار ادا کریں گے۔
امریکی سیاست میں داخل ہونا
خیراللہ کہتے ہیں کہ پراسپیکٹ پارک، نیو یارک سٹی کے مین ہیٹن سے 35 کلو میٹر کے فاصلے پرواقع ہے۔ اس کی آبادی 6,000 نفوس پر مشتمل ہے۔ ایک عرصے سے یہ قصبہ تارکینِ وطن کو خوش آمدید کہتا چلا آ رہا ہے۔ جب انھوں نے 1994 میں فائر فائٹر [آگ بجھانے والے] ایک رضاکا کے طور پر کام کرنے کے لیے درخواست دی، تو اس قصبے نے اپنا قانون تبدیل کیا اور ایسے لوگوں کو فائر فائٹر بننے کی اجازت دی جو امریکی شہریت نہیں رکھتے۔
خیراللہ نے بتایا، “میں ہمیشہ سے رضاکار فائر فائٹر کی حیثیت سے کام کرنا چاہتا تھا، لیکن سعودی عرب میں اگر آپ شہری نہیں ہیں، تو آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ جبکہ میں نے [ یہاں ] ہر وہ کام کیا جس کا مجھے ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔”
ان کے ذہن میں مقامی سیاست میں حصہ لینے کا خیال دوسرے فائر فائٹروں کی حوصلہ افزائی سے پیدا ہوا۔ ان لوگوں نے خیراللہ کو انتخاب لڑنے پر آمادہ کیا۔ لہٰذا 2001 میں، جب انہیں امریکی شہری بنے ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا، انھوں نے بالکل یہی کیا۔ انھوں نے کہا،” پھر ایک کے بعد دوسرا کام ہوتا چلا گیا۔”
وہ اپنی کمیونٹی کے احسانات کا بدلہ چکانا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو مسلمان امریکیوں میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے۔
خیراللہ اپنے عہدے کی تیسری مدت مکمل کر رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے قصبے کی نمائندگی کرتے ہیں جس میں عرب اور مسلمانوں کی کل تعداد، مجموعی آبادی کا 15 فیصد ہے۔
وہ کون ہیں، شاید ان کا انسٹاگرام پروفائل اس کی بہترین تصویر پیش کرتا ہے۔ “وہ ایک ایسے امریکی میئر ہیں جو اتفاق سے مسلمان ہیں۔”
شام واپسی
خیراللہ نے کبھی بھی اپنے ماضی کو فراموش نہیں کیا۔ وہ انسانی بھلائی کے مشنوں پر باقاعدگی سے شام جاتے رہے ہیں۔ شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک، وہ سات بار غذائی اور سکولوں اور ہسپتالوں کے لیے امدادی سامان لے کر شام جا چکے ہیں۔ حال ہی میں، انھوں نے سیریئن امریکن میڈیکل سوسائٹی کے لیے کام کرتے ہوئے، الیپو میں ایک زیرِ زمین ہسپتال قائم کرنے میں مدد کی۔ یہ سوسائٹی ایک فاؤنڈیشن ہے جس نے 320,000 پناہ گزینوں سمیت اس خطے کے 26 لاکھ مریضوں کا علاج کیا ہے۔
اپنی بیوی — جن سے ان کی ملاقات شام میں ہوئی تھی — اور تین بچوں پر مشتمل ان کا گھرانہ گھر میں عربی اور باہر انگریزی میں بات چیت کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کے بچوں کو دونوں زبانوں پر عبور حاصل ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ بچوں کو دنیا کے اچھے اور برے، دونوں رُخ دکھائے جائیں، اور ان کی خواہش ہے کہ ایک روز وہ انہیں لے کر شام واپس جائیں تا کہ وہ اس ملک کی “شاندار، خوبصورت تاریخ” کا مشاہدہ کر سکیں۔
انھوں نے کہا، “دنیا میں بہت زیادہ لڑائیاں ہورہی ہیں، اور بہت زیادہ نفرت پائی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے بچوں کی شخصیت پر ان چیزوں کا اثر پڑے ۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں مثبت سوچ کے حامل ہوں۔”