یہ تخلیق کار امریکہ میں آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں

امریکہ میں آرٹسٹ اپنی بات کا آزادانہ طور پر اظہار کر سکتے ہیں بھلے ان کے آرٹ میں امریکی حکومت یا کسی اور پر تنقید ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔

امریکی آئین کی پہلی ترمیم میں تقریر اور فنکارانہ اظہار کو وسیع تحفظ حاصل ہے۔

فلم ڈائریکٹر کلوئی چاؤ بیجنگ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ وہ ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے امریکہ آئیں۔ تاہم وہ اپنی انڈر گریجوایٹ اور گریجوایٹ ڈگریاں مکمل کرنے کے لیے امریکہ میں رک گئیں اور اب کیلی فورنیا میں رہتی ہیں۔

چاؤ نیویارک یونیورسٹی کے ‘ٹِش سکول آف آرٹ’ کی ایوارڈ یافتہ سابقہ طالبہ ہیں۔ وہ اپنی 2020ء کی فلم “نومیڈ لینڈ” کے لیے گولڈن گلوبز کا بہترین ایوارڈ جیتنے والی پہلی ایشیائی خاتون ہیں۔ 25 اپریل کو چاؤ نے ایک بار پھر اس وقت نئی تاریخ رقم کی جب انہوں نے بہترین ڈائریکٹر اور بہترین فلم کے اکیڈمی ایوارڈ جیتے۔

اس فلم میں امریکہ میں کام کرنے کے لیے آنے والے موسمی محنت کشوں کی زندگیوں، اُن کے مالی عدم تحفظ اور امریکی نظام میں اُن کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی عکاسی کی گئی ہے۔

 "نومیڈ لینڈ" فلم کا اشتہار (© Searchlight/AA Film Archive/Alamy)
کلوئی چاؤ کی حالیہ ترین فلم “نومیڈ لینڈ” میں فرانسس میک ڈورمنڈ نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ (© Searchlight/AA Film Archive/Alamy)

چاؤ نے2013ء میں ایک رسالے کو آن لائن شائع ہونے والا انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 12 پندرہ برس کی عمر میں چین میں رہنا “ایک ایسی جگہ پر رہنے کی طرح تھا جہاں چاروں طرف جھوٹ پھیلا ہو۔” اس کے نتیجے میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے “نومیڈ لینڈ” کو سنسر کیا اور اس کے اشتہارات بند کر دیئے۔

روزنامہ دا گارڈین کے مطابق “بہترین ڈائریکٹر کا گولڈن گلوبز ایوارڈ جیتنے والی تاریخ کی پہلی ایشیائی خاتوں بننے پر چینی میڈیا نے چاؤ کی وسیع پیمانے پر تعریف کی۔ اس کے چند دن بعد چین میں انٹرنیٹ سے” اس فلم کے اشتہاری مواد اور تمام حوالوں کو مکمل طور پر ہٹا دیا گیا۔

بلاخوف بیان کی گئی ایک کہانی

صحافی اور سرگرم کارکن، کھیٹ مار کو اُن کے ملک برما میں 1991ء میں جمہوریت نواز راہنما، آنگ سان سو چی کی قید کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ مار کو 10 برس قید کی سزا سنائی گئی  تاہم انہوں نے عام معافی کے معاہدے کی وجہ سے صرف ایک برس کی قید کاٹی۔

2007ء میں مستقبل میں قید کے خطرات حقیقت کا روپ دھارنے لگے تو مار نے محسوس کیا کہ اُن کو اپنے تب کے شوہر اور اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ اپنا ملک چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ انہیں 2009ء میں پٹس برگ میں “سٹی آف اسائلم رائٹر ” ( شہرِ پناہ کے مصنف) نامی دو سال کے ایک پروگرام میں داخلہ ملا اور وہ امریکہ منتقل ہو گئیں۔

اس پروگرام میں ایک فیلو کے طور پر انہوں نے دیکھا کہ وہ قانونی انتقامی کاروائیوں کا سامنا کیے بغیر اپنے ملک کی ثقافت اور سیاست کے بارے میں لکھ سکتی ہیں۔

مار نے 2019ء میں سیمپسونیا وے نامی آن لائن رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، “امریکہ میں، پٹس برگ میں، میں دیکھ سکتی ہوں کہ مصنفوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں یہ دکھا سکوں گی کہ امریکہ میں لوگ اپنے مصنفوں کی کس طرح قدر کرتے ہیں اور ایک معاشرے، کسی خاص ملک کے عوام، تعلیم اور ترقی کے لیے ادب کتنا اہم ہے۔”

آج کل وہ ریڈیو فری یورپ کے ساتھ بطور صحافی کام کرتی ہیں۔ انہوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن کا انگریزی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔