
لوگوں کو مریخ پر لے جانے والی کمپنی سپیس ایکس کی صدر، گوئن شاٹ ویل کا شمار کاروبار میں طاقتور ترین اور سب سے زیادہ با اثر خواتین میں ہوتا ہے۔ اُن کے اس مقام پر پہنچنے کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ ایک ایسی خاتون سے ملیں جس نے اُن کی کسی انجنیئر سے وابستہ توقعات سے کہیں زیادہ بڑھکر کامیابیاں حاصل کیں۔
شاٹ ویل شکاگو میں بڑی ہوئیں۔ کم عمری میں ان کی والدہ ایک دن انہیں اپنے ساتھ خواتین انجنیئروں کی سوسائٹی کی ایک کانفرنس میں لے گئیں۔ وہاں جا کر شاٹ ویل کو اس وقت حیرانی ہوئی جب ایک خاتون انجنیئر نے انہیں بہت متاثر کیا۔ گو کہ شاٹ ویل ایک ذہین طالبہ تھیں مگر مستقبل کے پیشے کے بارے میں ان کے ذہن میں … اس وقت تک کوئی واضح خاکہ نہیں تھا۔
2017 میں ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا، “اس کانفرنس سے میں یہ کہتے ہوئے نکلی، ‘ٹھیک ہے، میں مکینیکل انجنیئر بنوں گی،’ کیونکہ میرے خیال سے وہ ایک دلچسپ خاتون ہیں۔”
مکینیکل انجنیئرنگ میں ڈگری حاصل کرنے والی اپنی کلاس کی تین طالبات میں شامل شاٹ ویل نے ابتدا میں خودکاری اور خلا بازی کی صنعتوں میں کام کرنا شروع کیا۔ 2002 میں انہوں نے سپیس ایکس میں شمولیت اختیار کر لی۔
مخففاً سپیس ایکس کہلانے والی “سپیس ایکسپلوریشن ٹکنالوجیز کارپوریشن” ایک ایسی جدت طراز نجی کمپنی ہے جس نے راکٹوں کا ایک کامیاب کاروبار کھڑا کیا ہے۔ سپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک نے راکٹوں کی ایک ایسی نئی قسم تجویز کی ہے جس کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ مستقبل میں لوگ دنیا کے دور دراز شہروں تک کا سفر، ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں کر سکیں گے۔ مثلاً لندن سے ہانگ کانگ 34 منٹ میں پہنچنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
11 اپریل کو ٹکنالوجی کی ایک کانفرنس میں شاٹ ویل نے کہا، “یقیناً یہ کام ہونے جا رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر اس میں دلچسپی رکھتی ہوں کیونکہ میں بہت سفر کرتی ہوں اور مجھے سفر کرنا اچھا نہیں لگتا۔ ریاض میں اپنے گاہکوں کے بارے میں مجھے یہ بہت اچھا لگے گا کہ وہ صبح وہاں سے روانہ ہوں اور شام کے کھانے تک واپس آ جائیں۔”
خلا میں جانا اور ذہین لوگوں کو راغب کرنا
کمپنی کی کامیابی میں شاٹ ویل کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ 2008 میں شاٹ ویل کے سپیس ایکس کی صدر اور چیف آپریٹنگ افسر بننے کے بعد کمپنی کے ملازمیں کی تعداد 5,000 سے بڑھ گئی ہے اور سیل [فروخت] سات ارب ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ برس سپیس ایکس نے 18 خلائی مشن مکمل کیے۔ اس سال 30 اور مشنوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کمپنی کو امید ہے کہ 2020 کی دہائی میں مریخ پر پہلے سامان اور بعد میں لوگوں کو بھیجا جا سکے گا۔
شاٹ ویل اپنے اس صنعتی شعبے میں زیادہ خواتین کو لانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، “اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں خواتین انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔” تاہم ان کا خیال ہے کہ صنعت کے ذہین لوگوں کی اگلی نسل کو تیار کرنے کو یقینی بنانے کی خاطر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اُن کو یقین ہے کہ نسل یا صنف سے قطع نظر کسی شعبے میں آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ اچھا کام کرنا ہے۔ اُن کا اس صنعت کے ماہرین سے یہ کہنا ہے کہ وہ سرپرستی کے ذریعے “لوگوں تک رابطہ کریں اور اُن کی مدد کریں۔”
جیسا کہ شاٹ ویل خود ایک خاتون سے متاثر ہوئیں اسی طرح آج وہ دوسری خواتین کو متاثر کر رہی ہیں۔ واشنگٹن کی رہائشی خلائی معاملات کی وکیل، جیسیکا نوبل نے اپریل میں شاٹ ویل کو “وایا سیٹلائٹس ایگزیکٹو آف دا ایئر” ایوارڈ دینے کی تقریب میں کہا، “گوئن شاٹ ویل کو، جو میری طرح دکھائی دیتی ہے اور میری طرح بات کرتی ہے، سٹیج پر دیکھنے نے مجھ میں ایک نئی امید اور تحریک پیدا کر دی ہے۔ اس سے مجھ پر یہ واضح ہوگیا ہےکہ اس صنعت میں کامیاب ہونا ممکن ہے۔”
یہ مضمون فری لانس مصنف ویزلی تھامپسن نے تحریر کیا۔