17،000جزائر میں چھپی غیر قانونی ماہی گیر کشتیوں کو ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن بالکل یہی کام کرنے کے لیے انڈونیشیا کے پاس ایک نیا آلہ ہے — یعنی ایک ایسا آلہ جو تقریباً جوتے کے ڈبے جتنا بڑا ہے اور جس کا وزن صرف 4.5 کلو گرام ہے۔
یہ مصنوعی سیارہ نہ صرف چھوٹا اور ہلکا ہے، بلکہ اس کے مخصوص ڈیٹا کو — دیکھنے کے بجاۓ— سننے کے لئے بنایا گیا ہے۔ انڈونیشی حکومت کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرنے والی سان فرانسسکو میں قائم ایک نئی کمپنی، سپائر گلوبل کے چیف ایگزیکٹو پیٹر پلیٹزر نے کہا،” نظریاتی طور پر آپ ہر وقت تمام سمندروں کی تصاویر کھینچنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اگرچہ90 فیصد وقت آپ کو کچھ نظر نہیں آۓ گا اور نصف وقت راستے میں بادل حائل ہونگے۔”
سمندری امور اور ماہی گیری کی انڈونیشی وزیر، سوسی پَڈجیاسٹوٹی نے سپائر کے ساتھ کام کرنے کا اعلان کرتے ہوۓ کہا، “ہم انڈونیشیا کے پانیوں میں چلنے والی تمام کشتیوں کا سراغ لگانے اور انکی نگرانی کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس سے ہمیں یہ تعین کرنے میں مدد ملے گی کہ آیا یہ مچھلی پکڑنے والی کشتی ہے یا کوئی غیر قانونی بحری جہاز۔”
یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟
پلیٹزر نے کہا کہ اس پہلے نینو (ننھے مُنے) مصنوعی سیارے کی بنیاد ایک انتہائی سادہ سے خیال پر ہے— یعنی اس میں موبائل فونوں میں لگے ہوئے میموری کارڈوں سے ملتا جلتا ایک میموری کارڈ، اور پانی پرسرفنگ کرنے والوں کی ویڈیو بنانے کے لئے اکثر استعمال کیے جانے والے “گو پرو” نامی ایک مقبول عام کیمرہ استعمال کیا جاتا ہے۔
کیونکہ یہ سیٹلائٹ بہت چھوٹے ہوتے ہیں، لہذا انہیں آسانی سے اُن بڑی خلائی گاڑیوں پرلگایا جا سکتا ہے جو بسوں جتنے بڑے سیٹلائٹوں کو خلا میں چھوڑنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اپنے جیسے زیادہ بھاری اور زیادہ مہنگے نظاموں کے مقابلے میں یہ نظام، کم قیمت پر دنیا بھر کا کوریج فراہم کرسکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق انڈونیشیا ہر سال غیر قانونی ماہی گیری کی وجہ سے 2 کروڑ ڈالر اور مونگوں کی چٹانوں کے بے شمار وسیع علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ نقصانات اربوں میں ہیں۔ سیٹلائٹ کی یہ نئی ٹیکنالوجی غیرقانونی سرگرمیوں میں کمی لانے میں حکوتوں کی مدد کر سکتی ہے اور اس کے ذریعے بحری جہازوں کو ماہی گیری کے قوانین کے نفاذ کے لیے تعینات کیا جا سکتا ہے۔
غیر قانونی ماہی گیری سے نمٹنے کے لئے، امریکہ انڈونیشیا کے ساتھ پائیدار بنیادوں پر ماہی گیری کی حفاظت کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
امریکہ اقوام متحدہ کے “پورٹ سٹیٹ میژرز ایگریمنٹ” میں بھی شامل ہو گیا ہے، جس کے تحت غیر قانونی طور سے شکار کی گئی مچھلیوں کو کسی بھی ملک کی بندرگاہوں پر اتارنے کی ممانعت ہے۔