Row of bags of coffee (© City Girl Coffee Company)
دانوں کی شکل میں بازار میں بیچی جانے والی کافی اُن کھیتوں سے آتی ہے جن کی مالکان عورتیں ہیں اور وہی ان میں کام کرتی ہیں۔ (© City Girl Coffee Company)

پہلے پہل امریکی محض عام سی سادہ کافی پیا کرتے تھے۔ اس کے بعد انہیں سٹاربکس اور دیگر کیفوں میں تیز ایسپریسو کافی کا ذائقہ اچھا لگا اور انہوں نے گھر پر کافی بنانے کے لیے اعلیٰ درجے کی کافی، دانوں کی شکل میں خریدنا شروع کر دیں۔

منیسوٹا میں کافی کو بھوننے والی سٹی گرل کافی نامی کمپنی کی مالکہ الیزا بوہبوٹ اس رحجان سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ وہ ایک ایسی نئی تحریک کی قائد ہیں جو کہ کافی کلچر میں شاید اگلا بڑا رحجان بن سکتی ہے یعنی ‘خواتین کی کشید کردہ کافی۔’

Woman picking coffee beans from plant (© City Girl Coffee Company)
الیزا بوہبوٹ کولمبیا میں کافی کے دانوں کا معائنہ کر رہی ہیں۔ (© City Girl Coffee Co.)

وہ لاطینی امریکہ اور سماٹرا میں خواتین کسانوں کی اگائی گئی کافی خریدتی ہیں اور افریقہ میں خواتین ترسیل کنندگان کی متلاشی ہیں۔ امریکہ میں ان کا برانڈ واحد برانڈ ہے جو خواتین کے زیرانتظام کھیتوں سے ہی کافی خریدتا ہے۔

وہ امریکہ میں قائم غیرسرکاری ادارے، خواتین کی کافی کا عالمی اتحاد کی رہنما ہیں جس کی شاخیں 22 ممالک میں موجود ہیں۔ یہ ادارہ ایسی خواتین کو بااختیار بنانا چاہتا ہے جو کافی کے ایک اوسط پیالے کی تیاری میں 70 فیصد کردار ادا کرتی ہیں مگر ان کی ملکیت یا زیراہتمام کافی کے کھیتوں کی تعداد 15 فیصد سے بھی کم ہے۔

‘سٹی گرل کافی’ اپنے منافع کا 5 فیصد اس اتحاد اور اس عدم توازن کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے دوسرے غیرمنفعتی ادارے کافی فیمینو فاؤنڈیشن کوعطیہ کرتی ہے۔

بوہبوٹ کہتی ہیں، “ہم ان خواتین کو کامیاب، پائیدار اور منافع بخش کاروبار کی حامل بنانے کی خاطر ان کے لیے برابر کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” انہوں نے منیسوٹا کے علاقے ڈولوتھ میں اپنے والدین کی کافی بنانے والی دکان سنبھالی اور دوسرے کاروبار کے طور پر ‘سٹی گرل کافی’ کا آغاز کیا۔ (ان کے والدین تین دہائیاں قبل اسرائیل سے ہجرت کر کے اس کاروبار میں آئے اور انہیں یہ تجربہ ہوا کہ عمدہ کافی کا ایک کپ تلاش کرنا ایک مشکل کام ہے۔)

ان کے سامنے بھری مارکیٹ میں کافی بنانے والا محض ایک اور ادارہ قائم کرنے کے بجائے، ‘سٹی گرل کافی’ کو ایک نئی چیز بنانے کا چیلنج موجود تھا۔ اس کمپنی کو کافی فراہم کرنے والوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ کھیتوں میں کام کرنے والوں سے اچھا سلوک کریں اور انہیں قائدانہ مواقع فراہم کریں۔

Two women with basket and bag in field (© Café Femenino Foundation)
پیرو کی کافی اگانے والی کسان عورتیں۔ (© Café Femenino Foundation)

وہ کہتی ہیں، “یہ پہلا قدم ہے۔ دوسرا قدم یہ بات یقینی بنانا ہے کہ ہمارا معیار ہرممکن حد تک اعلیٰ درجے کا ہو۔”

یہ کافی کے کاشتکاروں کے لیے ہر طرح سے فائدہ مند صورتحال ہے جو اتحاد کو بتاتے ہیں کہ خواتین کو بااختیار بنانے سے ناصرف ان کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی اگائی گئی فصل کا معیار بھی بہتر ہو گیا ہے۔

‘سٹی گرل کافی’ کمپنی امریکہ کے تمام وسطی مغربی علاقوں کی سپر مارکیٹوں میں کافی فروخت کرتی ہے۔ بوہبوٹ نے دنیا بھر میں خریداروں کا ایک جامع جال بچھا دیا ہے اور وہ انہیں خواتین کاشتکاروں سے ملاتی ہیں۔

اس اتحاد کی 22 شاخوں میں سے ہر ایک شاخ کافی کی صنعت کے تمام شعبوں میں کام کرنے  والی خواتین کو کام کے بہتر ماحول، عالمی سطح پر روابط بنانے، اپنی مجموعی طاقت میں اضافے  اور تجارتی و کاروباری  صلاحیتوں میں بہتری لانے کے لیے پلیٹ فارم کی پیشکش کرتی ہے۔

کافی کے کھیت کی مالکہ اور گوئٹے مالا شاخ کی صدر، کامیلا ٹوپکے کہتی ہیں، “یہ اتحاد ہمیں شناخت دیتا ہے، یہ ہمیں مواقع فراہم کرتا ہے۔”

اگرچہ اس وقت ‘سٹی گرل کافی’ صرف خواتین کے زیراہتمام چلائے جانے والے کھیتوں سے کافی خریدنے والی واحد کمپنی ہے تاہم یہ زیادہ دیر اکیلی نہیں رہے گی۔ شکاگو سے بولڈر، کولوراڈو تک کافی بنانے والوں کی جانب سے خواتین کی حاصل کردہ پیداوار خریدنے کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گوئٹے مالا سے کافی کی ترسیل کرنے والی ایک اجتماعی کمپنی کی خاتون  نے بوہبوٹ کو بتایا کہ ‘سٹی گرل کافی’ کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کے بعد اس کمپنی نے نئے کام بھی شروع کیے ہیں جن میں مکھیوں کے چھتوں سے شہد کا حصول بھی شامل ہے۔

بوہبوٹ نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا، “سٹی گرل کی کاوشوں کی بدولت ‘کافی کے شعبے میں ان خواتین کی کامیابی انہیں دوسرے شعبہ جات میں بھی منافع بخش کارکردگی کے قابل بنا رہی ہے۔”