دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مسجد جانا یا بیرون ملک سفر کرنا ایک عام سی بات ہے۔ اس کے برعکس چین کی مسلمان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں شاید ملین کے حساب سے افراد کو اِن معمولی باتوں کی وجہ سے چینی حراستی کیمپوں میں بند کیا جا چکا ہے۔
اپریل 2017 سے لے کر اب تک کم از کم آٹھ لاکھ اور بیس لاکھ کے درمیان نسلی ویغوروں اور مسلمان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو چین کے شنجیانگ صوبے میں واقع کیمپوں میں بند کیا جا چکا ہے۔ اِن لوگوں نے بتایا ہے کہ اُن کو اپنا مذہب اور اپنی ثقافت چھوڑنے مجبور پر کیا جاتا ہے، اُن کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں اور اُن پر تشدد کیا جاتا ہے۔
چینی حکام کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کو بند کرنے کے لیے اِن کیمپوں کی ضرورت ہے۔ “ممکنہ دہشت گردی” کی نشانیاں جن کے نتیجے میں اِن لوگوں کو گرفتار کرکے کیمپوں میں ڈالا جا سکتا ہے اُن میں “غیرمعمولی” داڑھی، شراب یا سور کا گوشت کھانے سے انکار، یا کوئی بھی ایسا کام کرنا شامل ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔