انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا جتنی آج ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ نصف صدی پہلے انٹرنیٹ کا وجود تک نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر 1969 میں لاس اینجلیس سے ایک کمپیوٹر سے مینلوپارک، کیلی فورنیا میں دوسرے کمپیوٹر تک دو حروف نہ بھجوائے گئے ہوتے تو آج سوشل میڈیا، آپ کی پسندیدہ نیوز سائٹیں، حتٰی کہ لفظ “آن لائن” تک کاکوئی وجود نہ ہوتا۔

انٹرنیٹ کا آغاز باب ٹیلر نامی اُس شخص سے ہوتا ہے جو واشنگٹن میں محکمہِ دفاع کے ‘ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی [جدید تحقیق کے پراجیکٹوں کے ادارے] یا (آر پا) کے ساتھ کام کرتا تھا۔ دفتر میں اُس کے  پاس تین کمپیوٹر ٹرمینل تھے۔ اِن میں سے ہر ایک آرپا کے میساچوسٹس، لاس اینجلیس اور مینلو پارک میں واقع مختلف پراجیکٹوں سے منسلک تھا۔

ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک عبارت۔ (© Fred Prouser/Reuters)
اصلی روزنامچہ جس میں بعد میں انٹرنیٹ بننے والے آرپانیٹ کو بھیجے جانا والا پہلا پیغام درج کیا گیا۔ (© Fred Prouser/Reuters)

ٹیلر کو اس بات کی پریشانی تھی کہ وہ ایک ہی ٹرمینل سے تین پراجیکٹوں سے بات کیوں نہیں کر پاتا۔ وہ اس پر بھی پریشان تھا کہ تین پراجیکٹوں میں کوئی ایسا طریقہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعے وہ ایک گروپ کی صورت میں معلومات میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہو سکیں۔

ٹیلر کا حل —  یقینی طور پر کمپیوٹر کا پہلا نیٹ ورک  — آرپانیٹ کہلایا۔ یہ حل اُس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے چارلی کلائن، 1969 کی ایک رات پہلا پیغام بھجوانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے مینلو پارک میں سٹینفورڈ تحقیقی ادارے کے بل ڈووال کو یہ پیغام بھیجا “ایل او” یعنی لو۔ اس پیغام کا مقصد “لاگ اِن” کہنا تھا مگر دو حروف کے بعد پروگرام بند ہو گیا۔ (تاہم انہوں نے اسے ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹھیک کر لیا۔)

ایک آدمی اُس کمرے میں کھڑا ہے جس میں کمپیوٹر کے پرانے آلات رکھے ہوئے ہیں۔ (© Fred Prouser/Reuters)
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کا وہ کمرہ جہاں آرپانیٹ کے ذریعے جانے والا پہلا پیغام بھیجا گیا۔ (© Fred Prouser/Reuters)

اُس اختراع سے پروان چڑھنے والا آج کا انٹرنیٹ، ہمارے لیپ ٹاپوں، موبائل آلات، ٹیلی ویژنوں، ورزش کرنے والے ٹریکروں اور دیگر کئی ایک آلات کو آپس میں منسلک کرتا ہے۔

واشنگٹن کے انتخابی مہموں کے لیے چندہ اکٹھا کرنے اور اظہارِ رائے کے معاملات پر کام کرنے والے ایک وکیل، ڈین بیکر کا کہنا ہے، “ہر کوئی ٹیلی ویژن دیکھ سکتا ہے مگر معلومات وصول کرنے سے معلومات پہنچانے تک کا سفر ایک ایسی انقلابی پیشرفت تھی جس کو انٹرنیٹ نے ممکن بنایا۔ حقیقت میں آج ہر شخص اپنی ذات میں ایک ابلاغی وحدت ہے اور ہر کوئی عوام میں اپنے نظریات پھیلا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک مضبوط جمہورییت ساز قوت ہے۔”