
جب صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے 26 جولائی 1990 کو معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون (اے ڈی اے) پر دستخط کیے تو انہوں نے دماغی فالج میں مبتلا ایک نوجوان خاتون، لیزا کارل کا ذکر خاص طور پر کیا۔
دستخطوں کی اس تقریب میں صدر کے ساتھ شامل ہونے سے دو سال قبل، کارل اپنے شہر میں ایک سنیما ہال میں فلم دیکھنے گئیں تو سنیما کے مینیجر نے ان کی معذوری اور وہیل چیئر کے استعمال کی وجہ سے انہیں ہال میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اطلاعات کے مطابق مینیجر نے کہا، “میں نہیں چاہتا کہ وہ اندر جائے، اور میرے لیے اسے اندر جانے کی اجازت دینا کوئی ضروری بھی نہیں ہے۔”
بش نے تقریب میں کہا، “لیزا کارل … اب ہمیشہ اپنے آبائی شہر کے سنیما ہال میں جا سکیں گیں۔ ” بش کے دستخط کردہ قانون کی بدولت، سنیما مینیجر کی طرح کا سلوک امریکہ میں 30 سالوں سے غیر قانونی چلا آ رہا ہے۔
دنیا میں موجود شہری حقوق کے جامع ترین قوانین میں شمار ہونے والا اے ڈی اے کا قانون چار کروڑ امریکیوں کے لیے مساوی مواقع کے قانون کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت لوگوں کے تین گروپوں کو تحفظ حاصل ہے یعنی وہ جو ایسی جسمانی یا ذہنی خامیوں کا شکار ہیں جن کی وجہ سے زندگی کی ایک یا ایک سے زائد سرگرمیاں بہت حد تک محدود ہو جاتی ہیں؛ وہ جن کی ایسی کمزوریوں کی ایک تاریخ ہے یا جن کے بارے میں دوسرے یہ سوچتے ہیں کہ اُن میں کوئی خامی موجود ہے۔
اے ڈی اے عوامی زندگی کے تمام شعبوں میں امتیازی سلوک کو یہ یقینی بناتے ہوئے غیرقانونی قرار دیتا ہے کہ معذور افراد کے حقوق کا احترام کیا جائے اور انہیں معاشرے میں اُن کی بھر پور شرکت کے قابل بنایا جائے تا کہ وہ کام کرسکیں، سکول جا سکیں، نجی اور سرکاری ٹرانسپورٹ استعمال کر سکیں، ووٹ دے سکیں، اشیاء خرید سکیں اور اجرت پر خدمات حاصل کر سکیں یا عوامی مقامات تک رسائی حاصل کر سکیں۔
1990 کے قانون نے عمارات اور سہولتی مقامات سے طبعی یا تعمیراتی رکاوٹوں کو ختم کرکے مذکورہ بالا سب کاموں کو ممکن بنایا۔ یہ قانون ریستورانوں، پرچون کی دکانوں، سکولوں اور سنیما ہالوں کو قابل رسا بنانے کا پابند کرتا ہے۔ اس میں ریل گاڑیوں، کشتیوں اور بسوں جیسے نقل و حمل کے بیشتر ذرائع بھی شامل ہیں۔
معذوریوں کے حامل افراد کی مدد کرنے والے “یو ایس ایکسس بورڈ” نامی وفاقی ادارے کے ڈائریکٹر، ڈیوڈ کاپوزی کہتے ہیں، “اے ڈی اے (کے نفاذ) سے پہلے امریکہ میں وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کو تقریباً 40 فیصد بسوں تک رسائی حاصل تھی۔ آج امریکہ میں (ایسے افراد کو) 100 فیصد بسوں تک رسائی حاصل ہے۔”
اے ڈی اے کے منظور کرنے میں دو طرفہ حمایت نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ تب کے ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر، باب ڈول (کینساس) ، ڈیوڈ ڈورنبرگر (منیسوٹا) اور اورین ہیچ (یوٹاہ) کے ساتھ ساتھ ڈیمو کریٹک پارٹی کے اس وقت کے سینیٹر، ٹام ہارکن (آئیووا) اور آنجہانی ٹیڈ کینیڈی (میسا چوسٹس) بھی اس قانون کے پرزور حامی تھے ۔

ایوان نمائندگان میں، کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایوان کے رکن، ٹونی کوایلو نے اس مہم کی سربراہی کی۔ کوایلو کی دستبرداری کے بعد ایوان نمائندگان کے میری لینڈ سے ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن، سٹینی ہوئر نے یہ قیادت سنھالی۔
معذور افراد نے قانون کی منظوری میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ معذوریوں پر کام کرنے والی تنظیموں نے امتیازی سلوک کی ذاتی کہانیوں کو دستاویزی شکل دی۔ کانگریس کے سامنے معذور افراد اور ان کے حامی گروپوں نے حلفیہ گواہیاں دیں۔ حکومت کی وفاقی اور ریاستی، دونوں سطحوں کے قانون سازی اور انتظامی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے بھی ایسا ہی کیا۔
اے ڈی اے کی منظوری کے بعد اس قانون میں کی جانے والی ترامیم کے ذریعے کھیل کے میدانوں، تفریحی پارکوں، تیراکی کے تالابوں اور چھوٹے گالف کورسوں جیسے عوامی مقامات کو بھی اس قانون کے دائرہ کار میں لایا گیا۔ مریضوں کے معائنے والی میزوں، دانتوں کے ڈاکٹروں کے کلینکوں میں مریضوں کی کرسیوں اور ایکس رے مشینوں جیسے تشخیصی آلات تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ وہیل چیئر استعمال کرنے والے افراد کے لیے وہیل چیئر اور مریضوں کو اس طرح کے تشخیصی فرنیچر پر منتقل کرنے کے درمیان فاصلے کم کریں اور انہیں قابل رسا بنائیں۔
اے ڈی اے کیوں بنا اور یہ کس طرح کام کرتا ہے
امریکہ میں ترقی پسند قوانین عام طور پر ریاستوں میں پہلے منظور کیے جاتے ہیں اور بعد میں کانگریس ان پر غور کرتی ہے۔ اسی لیے عموماً ریاستوں کا حوالہ جمہوریت کی تجربہ گاہوں کے طور پر دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ معذوریوں سے متعلق قوانیں کے سلسلے میں ہوا، کانگریس ایسے کم از کم اقدامات کی منظوری دیتی ہے جن کا اطلاق شروع میں وفاقی حکومت کے اہلکاروں پر ہوتا ہے۔ اس طرح چھوٹے تجربات کامیاب ہوتے ہیں اور اِن سے وسیع تر قانون سازی کے امکانات کو تقویت ملتی ہے۔
اے ڈی اے کی منظوری سے قبل، تعمیراتی رکاوٹوں کے قانون مجریہ 1968 کے تحت یہ لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے ڈیزائن اور تعمیر کی جانے والی عمارتیں معذوریوں کے حامل افراد کے لیے قابل رسا ہوں۔ آباد کاری کے قانون مجریہ 1973 کی دفعہ 504 کے تحت وفاقی حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے پروگراموں میں معذوریوں کے حامل افراد کے خلاف امتیازی سلوک کو ممنوع قرار دیا گیا۔
1975 کے “سب معذور بچوں کے لیے تعلیم کے قانون” نے (جسے بعدازاں “معذوریوں کے حامل انفرادی افراد کے بارے میں تعلیم کے قانون” کا نام دیا گیا) معذور بچوں کو کم سے کم پابندیوں والے ماحول میں آزاد اور مناسب سرکاری تعلیم کا حق دیا۔ منصفانہ رہائش کے قانون مجریہ 1968 میں 1988 میں توسیع کی گئی تاکہ معذور افراد کو اس شعبے میں امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
کاپوزی کہتے ہیں کہ نجی شعبے میں معذور افراد کو امتیازی سلوک کے خلاف کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ اِن افراد کو ایسی کوئی ضمانت بھی حاصل نہیں تھی کہ تمام ریاستی اور مقامی سرکاری عمارتوں یا پروگراموں کو اُن کے لیے قابل رسا بنایا جائے گا۔
نسل، رنگ، مذہب، صنف اور قومیت کی بنیاد پر امتیاز برتنے کو غیرقانونی قرار دینے والے شہریوں کے حقوق کے قانون مجریہ 1964 سے متاثر ہو کر منظور کیے جانے والے اے ڈی اے میں امتیازی سلوک کے خلاف وسیع تر تحفظات فراہم کیے گئے ہیں۔ کاپوزی اے ڈی اے کے بارے میں کہتے ہیں، “یہ کاغذی شیر نہیں ہے۔ یہ بڑا جامع ہے اور اس میں نفاذ کا ایک زبردست طریقہ کار بھی موجود ہے۔”
اگر کوئی فرد سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا گیا ہے تو وہ امریکی محکمہ انصاف کے پاس وفاقی شکایت درج کرا سکتا/سکتی ہے۔ وہ متعلقہ ریاست کے قانون کے مطابق، ریاست میں بھی کسی جگہ شکایت یا قانونی چارہ جوئی کی وفاقی شکایت درج کرا سکتا/سکتی ہے۔ قصوروار مدعا علیہان کو عام طور پر شکایت کا ازالہ کرنا ہوتا ہے یا ملازمت کا مسئلہ حل کرنا ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں انہیں جرمانے بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔
بش نے دستخطوں کی تقریب میں کہا، “اے ڈی اے نہ صرف معذور افراد بلکہ ہم سب کے لیے ایک ڈرامائی تجدید بھی ہے، کیونکہ امریکی ہونے کے انمول استحقاق کے ساتھ یہ مقدس فریضہ بھی آتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دوسرے تمام امریکیوں کو بھی حقوق کی ضمانت حاصل ہو۔”