امریکی انتخابات میں عام طور سے سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ 55 فیصد عوامی ووٹ حاصل کرنے والےامیدواروں کی کامیابی کو بھاری اکثریت سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ووٹوں میں اس سے بھی کم فرق، فیصلہ کُن سمجھے جاتے ہیں۔

لیکن کبھی کبھار انتخابات میں صحیح معنوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ درحقیقت صدارتی انتخاب، 51 الگ الگ انتخابات ہوتے ہیں (50 ریاستیں اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا)۔ اس لیے کئی ایک لحاظ سے ان انتخابات کے نتائج سخت مقابلوں کے ثبوت ہوتے ہیں۔

اگر مندرجہ ذیل انتخابی ضوابط کو سمجھ لیا جائے تو اس کی وجوہات سمجھنے میں آسانی ہوگی:

  • الیکٹورل کالج [صدر کا چناوً کرنے والے گروپ] میں ہر ریاست کے الیکٹورل ووٹوں کی ایک مخصوص تعداد ہوتی ہے۔ اس تعداد کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک کی کُل آبادی میں اس ریاست کا کتنا حصہ ہے۔
  • دو ریاستوں کے سوا باقی تمام ریاستیں اپنے سارے الیکٹورل ووٹ اس امیدوار کو دیتی ہیں جسے اس ریاست میں سب سے سے زیادہ عوامی ووٹ ملے ہوتے ہیں۔
  • صدر بننے کے لیے، کسی بھی صدارتی امیدوار کو مجموعی الیکٹورل ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا ہوتی ہے جو کہ 270 ہے۔
  • اگر کسی بھی امیدوار کو الیکٹورل کالج کی اکثریت حاصل نہ ہو تو ایوانِ نمائندگان نئے صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ریاستوں کے وفود ایوان میں نئے صدر کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔ ہر ریاست کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کا فیصلہ کن کردار

دو موقعوں پر ایوانِ نمائندگان نے صدارت کا فیصلہ کیا۔ تاہم دونوں موقعوں پر وجوہات بہت مختلف تھیں:

  • 1800 کے انتخاب میں امریکی آئین کی ایک خامی سامنے آئی۔ اصل آئین جس شکل میں منظور کیا گیا تھا اس کے تحت ہر الیکٹر صدر کے لیے دو ووٹ ڈال سکتا تھا۔ اس طرح جس امیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے وہ صدر بن جاتا اور اس سے کم ووٹ حاصل کرنے والے کو نائب صدرکا عہدہ ملتا۔ جب تھامس جیفرسن اور ایرون بر نے ایک ساتھ انتخاب میں حصہ لیا، تو ہر کوئی جانتا تھا کہ جیفرسن صدرات کے امیدوار تھے، اور بر کو نائب صدرکا عہدہ ملنا تھا۔ لیکن جیفرسن اور بر کے تمام الیکٹرز نے دونوں امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے برابر ووٹ حاصل کیے! کافی سیاسی جوڑ توڑ کے بعد ایوانِ نمائندگان نے جیفرسن کو صدر چُن لیا۔ اس کے بعد، آئین میں 12ویں ترمیم کے ذریعے صدر اور نائب صدر کے لیے علیحدہ علیحدہ ووٹنگ کا نظام وضح کیا گیا۔
  • 1824ء میں کسی بھی امیدوار کو الیکٹورل کالج کی اکثریت حاصل نہ ہوئی۔ چوتھے نمبر پر آنے والے ہنری کلے نے دوسرے نمبر پر آنے والے امید وار، جان کوئنسی ایڈمز کی حمایت کی جس کے نتیجے میں جان ایڈمز نے ایوانِ نمائندگان میں انتخاب جیت لیا۔

عوامی ووٹ بمقابلہ الیکٹورل ووٹ

1824ء  کے انتخاب سے الیکٹورل کالج کے نظام کا ایک اور تضاد سامنے آیا۔ بعض اوقات وہ امیدوار جسے سب سے زیادہ عوامی ووٹ ملتے ہیں، الیکٹورل کالج میں ہار جاتا ہے۔ 1824ء میں اینڈریو جیکسن کے ساتھ یہی ہوا۔ (جیکسن نے بعد میں 1828 اور 1832 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔) عوامی ووٹوں میں ہارنے کے باوجود، 1876ء  میں ردرفورڈ بی ہیز صدر بنے، 1888ء میں بنجمن ہیریسن جیتے، اور 2000ء  میں جارج ڈبلیو بُش کامیاب ہوئے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سب سے زیادہ منصفانہ نظام یہ ہے کہ پورے ملک میں عوامی ووٹوں کو گِن لیا جائے۔ دراصل، 1787ء  کے کنونشن میں آئین کا مسودہ تیار کرتے وقت، اس دلیل پر غور کیا گیا تھا۔ لیکن نئی وفاقی حکومت کے بانی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ وفاقی حکومت کو حقیقی معنوں میں ریاستوں کا ایک وفاق ہونا ہے۔

یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ امیدوار عوامی ووٹ لینے کے لیے نہیں بلکہ الیکٹورل کالج کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر مقصد یہ ہوتا کہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جائیں، تو امیدوار زیادہ آبادی والی ریاستوں یعنی “محفوظ ریاستوں” میں جہاں کسی ایک پارٹی کے امیدواروں کی حمایت میں یقینی ووٹ پڑتے ہوں، زیادہ سے زیادہ اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے – جیسے کیلی فورنیا (3 کروڑ 90 لاکھ آبادی کی ریاست؛ 1992 سے اب تک مسلسل ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتی رہی ہے) اور ٹیکسس (2 کروڑ 70 لاکھ آبادی کی ریاست، جو 1980 سے مسلسل ری پبلیکنز کو ووٹ دیتی رہی ہے)۔ اس کے بجائے امیدواروں کی تمام تر توجہ ایسی ریاستوں میں فتح حاصل کرنے پر مرکوز ہوتی ہے جہاں تھوڑے سے ووٹوں سے ہی سہی، مقابلہ سخت ہوتا ہے یا جہاں ووٹروں کی پسند ناپسند میں تبدیلی آتی رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ ریاستیں “فیصلہ کن” ریاستیں کہلاتی ہیں۔

بعض ریاستیں انتخاب کا نتیجہ تبدیل کر سکتی ہیں

بعض انتخابات میں مقابلہ سخت ہو جاتا ہے کیوںکہ ان ریاستوں کے نتائج میں جن میں ووٹر اپنی رائے تبدیل کرتے رہتے ہیں، فرق بہت کم ہوتا ہے۔ مثلاً ریاست ایلانوائے میں 1960 میں  جان ایف کینیڈی کی فتح کی وجہ ان کی 8,858  ووٹوں کی اکثریت بنی۔

دیگر صورتوں میں الیکٹورل کالج سے امیدوار کی فتح کا فرق بڑا نظر آنے لگتا ہے۔ آٹھ سال قبل کینیڈی سے ہارنے والے رچرڈ ایم نکسن نے، 1968 میں 1 فیصد سے بھی کم عوامی ووٹوں کی اکثریت سے الیکشن جیتا۔ اس کے باوجود انھوں نے الیکٹورل کالج میں 301 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مخالف امیدوار کو 191 ووٹ ملے۔ ایک تیسرے امیدوار نے 45 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔

سب سے زیادہ کانٹے کا مقابلہ

تازہ ترین واقعہ جارج ڈبلیو بُش اور ایلگور کے درمیان 2000 کے صدارتی انتخاب کا ہے جس میں بُش نے فلوریڈا میں جہاں تقریباً 60 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے، 537 ووٹوں کی اکثریت سے فتح حاصل کی۔ یہ ایک ایسا انتخاب تھا جس میں شدید مقابلے والے انتخاب کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ گور عوامی ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر تو جیت گئے مگر الیکٹورل کالج میں ہار گئے۔ اس مقابلے میں حتمی فیصلہ ان ریاستوں کی بنیاد پر نہیں ہوا جہاں امیدواروں نے شاندار فتوحات حاصل کی تھیں (گور کیلی فورنیا میں 13 لاکھ ووٹوں سے جیتے تھے؛ بش ٹیکسس میں اس سے بھی زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے)، بلکہ ایک ایسی ریاست کا انتخاب فیصلہ کن ثابت ہوا جہاں دونوں امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں میں فرق اتنا کم تھا کہ جیتنے والے کا فیصلہ کرنے کے لیے پانچ ہفتوں تک ووٹوں کی دوبارہ گنتیاں کرنا پڑیں اور جیتنے والے امیدوار کا فیصلہ سپریم کورٹ میں جا کر ہوا۔

ایلگور اور جارج ڈبلیو بُش ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ (© AP Images)
صدر جارج ڈبلیو بُش (دائیں جانب) اور ایلگور 2007ء میں۔ (© AP Images)

2000ء  کے انتخاب سے ملک کے جمہوری اداروں کی توانائی — اور ان پر ووٹروں کے اعتماد کا اظہار ہوا۔ اس انتخاب میں بھی جس میں مقابلہ بڑے کانٹے کا تھا اور دونوں پارٹیوں کے حامیوں کی تعداد میں فرق بہت ہی کم تھا، امریکیوں کو توقع تھی کہ اقتدار پُرامن اور منظم انداز میں منتقل ہوگا — اور ان کی یہ امید پوری ہوئی۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد گور نے قوم سے کہا، “میں … اپنی یہ ذمہ داری قبول کرتا ہوں کہ نو منتخب صدر کا احترام کروں اور امریکیوں کو یکجا کرنے کے اس عظیم تصور کی تکمیل کے لیے جس کی وضاحت ہمارے اعلانِ آزادی میں کی گئی ہے، اور جس کا اعادہ اور جس کا دفاع ہمارا آئین کرتا ہے، نو منتخب صدر کی مدد کرنے کے لیے ہر وہ ممکن کوشش کروں جو میری بساط میں ہے۔”

کارٹر سینٹر کے ڈیموکریسی پروگرام کے ڈیوڈ کیرل عوامی عہدے کے طلبگار امریکیوں کی ستائش کرتے ہیں جو”اگر ہار جاتےہیں، تو نتیجے کو قبول کر لیتے ہیں، اور اگر جیت جاتے ہیں، تو ہارنے والوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے میں بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔”