گزشتہ 12 ماہ میں بہت سے ایسے امریکی انتقال کر گئے جنہوں نے معاشرے کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں۔
ان میں اداکارہ انجیلا لینسبری، موسیقی کی صنف جاز کے سیکسا فون بجانے والے فیرو سینڈرز، معالج/انسان دوست پال فارمر، راک ’این‘ رول کے شہرہ آفاق گلوکار جیری لی لیوس اور نیورو بائیولوجسٹ ارسولا بیلوگی شامل ہیں۔
شیئر امریکہ آرٹس، سائنس، سیاست یا کھیلوں کےمیدانوں میں اُن کی سرانجام دی جانے والیں خدمات سے مرتب ہونے والے دیرپا اثرات کی وجہ سے انہیں خراج تحسین پیش کرریا ہے۔ اِن میں سے چند ایک نامور شخصیات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:-

بہاماز سے تعلق رکھنے والے والدین کے ہاں پیدا ہونے والے سڈنی پواٹیے نے ‘للیز آف دی فیلڈ‘ نامی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ وہ پہلے سیاہ فام اداکار تھے جنہوں نے مرکزی کردار ادا کرنے پر 1964 میں آسکر ایوارڈ حآسل کیا۔ 1967 میں وہ اپنی تین فلموں (ٹو سر، وِد لو؛ اِن دا ہیٹ آف دی نائٹ؛ اور گیس وہو از کمنگ ٹو ڈنر) کی وجہ سے اُس وقت کی فلمی دنیا کے ستارے بن گئے اور اُن کی اداکاری سے ہالی وڈ میں نسلی رکاوٹوں کو ختم کرنے میں مدد ملی۔ پواٹیے شہری حقوق کے لیڈر بھی تھے۔ انہوں نے 2009 میں صدر بارک اوباما سے امریکہ کا صدارتی تمغہ آزادی وصول کیا۔ 6 جنوری کو اُن کا 94 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔

1997 میں صدر بل کلنٹن نے میڈلین البرائٹ کو امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ مقرر کیا۔ اس سے پہلے وہ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مسقبل مندوب کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی تھیں۔ وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا سختی سے دفاع کرتی تھیں۔ پراگ میں پیدا ہونے والی البرائٹ چھوٹی سی بچی تھیں جب وہ لندن منتقل ہوئیں اور وہ 11 برس کی عمر میں امریکہ آ گئیں۔ کولمبیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے چار دہائیوں پر محیط سفارت کاری کے شعبے میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا جس کے دوران انہوں نے نیٹو کی توسیع اور مشرقی یورپ میں جمہوریت کی حمایت کی۔ اوباما نے انہیں 2012 میں امریکہ کا صدارتی تمغہ آزادی دیا۔ اُن کا 84 برس کی عمر میں 23 مارچ کو انتقال ہوا۔

کلاس اولڈنبرگ سویڈش نژاد امریکی پاپ آرٹسٹ تھے جو عام اشیاء کے بڑے بڑے مجسمے بنانے کے لیے مشہور تھے۔ وہ 1950 کی دہائی میں نیویارک کی فن کی دنیا میں ایک اہم شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ انہوں نے چیریز، کپڑوں سے لگائی جانے والی چٹکیوں، چمچوں اور معمولی چیزوں کو اُن کے اصلی سائز سے بڑا بنا کر عجیب و غریب آرٹ تخلیق کیا۔ بالعموم وہ اپنی بیوی کوشا وین برگن کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے تھے۔ نیویارک کے جدید آرٹ کے میوزیم کی بنائی گئی ایک ویڈیو میں اولڈنبرگ کہتے ہیں کہ “میرے آرٹ کا ایک اصول ہے کہ “یہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔ میں اس کا آغاز چیزوں سے لیے جانے والے کام کو ختم کرنے سے کرتا ہوں کیونکہ اِن کا حقیقی کام آرٹ کا ایک فن پارہ بننا ہی ہوتا ہے۔” وہ 18 جولائی کو 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

رونی سپیکٹر جن کا پیدائشی نام ویرونیاکا سپیکٹر تھا ‘دا رونیٹس’ نامی پاپ/سول گروپ کی سربراہ تھیں۔ 1957 میں اپنی بہن، ایسٹیل بینیٹ اور اپنی کزن نیڈرا ٹیلی کے ساتھ چودہ پندرہ سال کی عمروں میں مل کر انہوں نے نیویارک میں تین افراد پر مشتمل یہ گروپ بنایا جس نے 1960 کی دہائی میں ‘بی مائی بے بی’ اور ‘بے بی آئی لو یو’ سمیت بہت سے مقبول نغمے گائے۔ 1967 میں ‘دی رونیٹس’ کے ختم ہونے کے بعد سپیکٹر نے اکیلے گانا شروع کر دیا اور گانوں کے کئی ایک البم جاری کیے۔ 2007 میں سپیکٹر اور ‘دی رونیٹس’ گروپ کی اُن کی ساتھیوں کو راک اینڈ رول کے ‘ہال آف فیم’ میں شامل کیا گیا۔ سپیکٹر کا 78 برس کی عمر میں 12 جنوری کو انتقال ہوا۔

ڈونلڈ پِنکل بچوں کے سرجن اور کینسر کے محقق تھے۔ وہ میمفس، ٹینیسی میں بچوں کی تحقیق کے ‘سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ’ ہسپتال کے بانی ڈائریکٹر تھے۔ انہوں نے 1960 کی دہائی میں بچپن میں لیوکیمیا کا پہلا موثر علاج تیار کرکے نئی طبی تاریخ رقم کی۔ پنکل نے سکِل نامی خلیوں کی خرابیوں اور کینسر کی دیگر اقسام اور بیماریوں کا مطالعہ کرنے کی کوششوں کی قیادت بھی کی۔ 1973 میں سینٹ جوڈ چھوڑنے کے بعد انہوں نے وسکونسن، کیلی فورنیا، پنسلوانیا اور ٹیکساس کے ہسپتالوں اور میڈیکل سکولوں میں کام کیا، متعدد اعزازات حاصل کیے۔ وہ 1994 میں ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے 9 مارچ کو 95 سال کی عمر میں وفات پائی۔

بل رسل باسکٹ بال کے مشہور کھلاڑی اور نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن کے پہلے سیاہ فام سپر سٹار تھے۔ وہ 1956 سے لے کر 1969 تک بوسٹن سیلٹکس نامی ٹیم کے لیے کھیلتے رہے اور انہوں نے 13 سیزنوں میں 11 چیمپیئن شپ ٹائٹل جیتے۔ اُن کے اس ریکارڈ کو ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ انہیں 1966 میں سیلٹکس کا کھلاڑیوں کا کوچ مقرر کیا گیا اور اس طرح انہیں امریکہ میں پیشہ ورانہ کھیلوں کی کسی بڑی جدید ٹیم کے پہلے سیاہ فام کوچ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ بعد میں انہوں نے ‘سی ایٹل سپرسونکس’ اور ‘سیکرا منٹو کنگز’ نامی ٹیموں کی کوچنگ کی۔ وہ شہری حقوق کے سرگرم کارکن۔ انہوں نے 1979 میں خود نوشت سوانح حیات شائع کی۔ انہیں 2011 میں اوباما نے امریکہ کا صدارتی تمغہ آزادی دیا۔ اُن کا 88 برس کی عمر میں 23 مارچ کو انتقال ہوا۔

مورخ اور ٹی وی پروگراموں کے میزبان ڈیوڈ میکلو نے 1992 میں ٹرومین اور 2001 میں جان ایڈمز کی صدارتی سوانح عمریاں لکھیں اور 2001 میں پلٹزر پرائز جیتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے نوجوان تھیوڈور روزویلٹ پر مرکوز تحریروں پر دو ‘نیشنل بک ایوارڈ’ بھی حاصل کیے۔ اُن کا شمار امریکہ کے اُن مصنفین میں ہوتا ہے جن کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئیں۔ ماضی کی امریکی شخصیات کو واضح طور پر پیش کرنے کے اپنے مزاج کی بدولت وہ ‘ امریکن ایکسپریئنس’ نامی ٹیلی ویژن سیریز کی میزبانی کرنے اور کین برنز کی ‘دی سول وار‘ سیریز سمیت مشہور فلموں اور دستاویزی فلموں کے راوی کے طور پر منتخب کیے جانے کے فطری انتخاب قرار پائے۔ میکلو کو صدر جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں صدارتی تمغہ آزادی سے نوازا تھا۔ ان کا 7 اگست کو 89 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔

گلوکارہ اور نغمہ نگار لوریٹا لِن خواتین کے محنت کش طبقے کی آواز تھیں۔ 1962 میں ‘سکسس’ کے نام سے انہوں نے ایک گانا لکھا اور گایا۔ یہ گانا انہیں شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ اس کے بعد اُن کے گانے یکے بعد دیگرے ملک کے مقبول ترین گانوں کی فہرست میں اول نمبر پر آتے رہے۔ کینٹکی کے اپلاچین پہاڑوں میں کان کنوں کے ایک قصبے میں پیدا ہونے والی، لِن کی شادی 15 برس کی عمر میں ہوئی۔ 19 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے وہ چار بچوں کی ماں بن چکی تھیں۔ اُن کے کچھ گانے اُن کی غیر مستحکم شادی سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے۔ مگر اُن کی آپ بیتی پر مبنی 1970 کا سب سے بڑا گانا ‘اے کول مائنرز ڈاٹر’ [ایک کان کن کی بیٹی] تھا۔ انہوں نے اسی گانے کے نام کو اپنی یادوں کا عنوان دیا اور اُن پر بننے والی فلم کو بھی یہی نام دیا گیا۔ 1988 میں وہ لوک موسیقی کے ‘کنٹری میوزک ہال آف فیم’ کے لیے منتخب ہوئی۔ انہیں 2013 میں اوباما نے صدارتی تمغہ آزادی دیا۔ اُن کا انتقال 4 اکتوبر کو 90 سال کی عمر میں ہو۔