2022 میں ہونے والی ایجادات

تخلیقی کاروباروں کا تعلق منافعے سے بڑھکر دیگر چیزوں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ ضرورت مندوں کی زندگیوں کو آسان بنا سکتے ہیں، صحت عامہ کو بہتر بنا سکتے ہیں یا ماحولیاتی تحفظ کو تقویت پہنچا سکتے ہیں۔

امریکی ایجادات کا شمار بھی مفید ترین اور کاروباری لحاظ سے کامیاب ترین ایجادات میں ہوتا ہے۔

ذیل میں 2022 میں امریکی کمپنیوں کی بعض اُن ایجادات ذکر کیا جا رہا ہے جو سماجی مشن کی مثال ہیں۔ اِن کمپنیوں کی ایجادات ٹائم رسالے کی 2022 کی بہترین ایجادات کی حالیہ فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔

بائیو بوٹ

انسانی فضلہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہر کوئی بچتا ہے مگر ایک کمپنی اسے بیماری کی موجودگی کا پتہ چلانے کی غرض سے تحقیق کے لیے استعمال کرتی ہے۔ استعمال شدہ گندے پانی کے 150 ملی لیٹر کے چھوٹے چھوٹے نمونوں کا تجزیہ کر کے بائیوبوٹ کسی بھی کمیونٹی میں بیماری کی سطح کا تعین کر سکتی ہے۔ فضلے کے تجزیے سے ‘اوپیاڈ’  کہلانے والیں منشیات کے استعمال کا پتہ چلانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

کیمبرج، میساچوسٹس کی ‘بائیو بوٹ’ گندے پانی کا تجزیہ کرنے والی امریکہ کی پہلی کمپنی تھی جس نے کووڈ-19 کا پتہ چلایا اور اس کے نتائج شائع کیے۔

بائیو بوٹ کی صدر اور شریک بانی، نیوشا غیلی نے بتایا کہ “گندہ پانی ناقابل یقین حد تک اپنے اندر معلومات لیے ہوتا ہے۔”

بائیں تصویر: سٹینڈ میں رکھیں نلکیاں۔ دائیں تصویر: لیپ ٹاپ کی سکرین پر دکھائی دینے والا ڈیٹا (Photos courtesy of Biobot)
لوگوں کے استعمال شدہ گندے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کرکے بائیو بوٹ نامی کمپنی کمیونٹیوں میں موجود بیماریوں کا پتہ چلا سکتی ہے۔ (Photos courtesy of Biobot)

یہ کمپنی دو عورتوں نے مل کر بنائی۔ کووڈ-19 وباء کے پھوٹنے کے ابتدائی دنوں میں اس کمپنی نے امریکہ کے 400 شہروں کو اپنی ٹیکنالوجی کے مفت استعمال کی پیشکش کی تاکہ اُن شہروں کے اہلکار اِس وائرس کو ٹیسٹ کر سکیں۔

غالی نے کہا کہ “ہم نے محسوس کیا کہ یہ ڈیٹا ممکنہ طور پر بہت زیادہ قیمتی ہے اور ہماری خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ کمیونٹیوں کو اس تک رسائی حاصل ہو تاکہ ہم اُن سے سیکھ سکیں۔”

بوسٹن کا شمار اُن شہروں میں ہوتا ہے جنہوں نے کووڈ-19 کا پتہ چلانے کے لیے گندے پانی کا تجزیہ کرنے کے لیے جگہیں فراہم کرنے میں کمپنی کے ساتھ تعاون کیا۔

پولی

وائی فائی کا ایک نیا آلہ نابینا طلباء کو بریل کو کسی کی مدد کے بغیر آزادانہ طور پر پڑھنا اور لکھنا سیکھنے میں مدد  کرنے کی امید دلاتا ہے۔ لوئی وِل، کنٹکی کے نابینا افراد کے لیے امریکی پرنٹنگ ہاؤس نے پولی کے نام سے یہ آلہ بنایا ہے۔

یہ آلہ بریل کے ذریعے مطالعہ کرنے والے افراد کو تعلیم کے دوران آڈیو کے ذریعے مدد فراہم کرتا ہے۔ اس طریقے سے کلاس روم جیسا ماحول بن جاتا ہے۔ یہ آلہ بصارت سے محروم طالبعلموں کو اہل اساتذہ کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرتا ہے۔

 سفید اور جامنی رنگ کا آلہ جس پر نقطوں اور بٹنوں کی قطاریں بنی ہوئی ہیں (Courtesy of APH)
‘پولی’ الیکٹرانک وائی فائی سے چلنے والا ایک آلہ ہے جو صارفین کی بریل کے تصورات کو سیکھنے اور اچھی طرح سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ ان پٹ اور آؤٹ پٹ دونوں کے لیے بہت سی سہولتوں کے حامل پولی کے ذریعے مشق کی جا سکتی ہے اور بریل سیکھنے کے عمل کو مزید پرلطف بنا سکتا ہے۔ (Courtesy of APH)

امریکی پرنٹنگ ہاؤس کی پروڈکٹ مینیجر ڈونا میکلیور-راجرز بتاتی ہیں کہ “یہ آلہ طالب علموں کو اس وقت سیکھنے میں مدد کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جب ان کے TVI [ٹی وی ون یعنی بصارت سے محروم افراد کو پڑہانے کے مجاز اساتذہ) موجود نہیں ہوتے۔”

اس ایجاد کا نام پولی تھامسن کے اعزاز میں رکھا گیا ہے جو ایک طویل عرصے تک ہیلن کیلر کی مترجم رہیں۔ امریکہ سے باہریہ آلہ بھارت میں موجود کاروباری شراکت کار کمپنی ‘تھنکرز بیل لیبز’ کے ذریعے “اینی” کے نام سے فروخت کیا جائے گا۔ یہ نام این سلیوان کے اعزاز میں رکھا گیا ہے جو کیلر کی انسٹرکٹر اور زندگی بھر اُن کی ساتھی رہیں۔

سورس میپ

امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں جبری مشقت سے کام لے کر بنائی جانے والی اشیاء کی درآمدات پر پابندی کے قوانین موجود ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وسیع نیٹ ورک کی حامل کمپنیاں اپنے رسدی سلسلوں کا زیادہ تفصیل سے جائزہ لیں گیں۔

ویغوروں سے لی جانے والی جبری مشقت کی روک تھام کے امریکی قانون کے تحت سنکیانگ میں جبری مشقت کے تحت بنائی جانے والی اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد ہے۔ اس قانون کے ردعمل میں ‘سورس میپ’ کے نام سے نیویارک سٹی میں ایک کمپنی قائم کی گئی ہے۔ رسدی سلسلوں سے متعلق ڈیٹا کمپنی کے افشاء کے بیانات، موقعے پر کیے جانے والے معائنوں، سیٹلائٹ کی تصاویر اور آزاد رپورٹوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ لاکھ سے زیادہ کاروبار اس کے پلیٹ فارم پر رجسٹرڈ ہیں۔

سورس میپ کے چیف ایگزیکٹو اور بانی، لیونارڈو بونانی کہتے ہیں کہ “ان نئے قوانین کی موجودگی میں لاعلمی [اب] کوئی بہانہ نہیں رہا۔”

اپ پینٹ

امریکہ میں ہر سال 10% رنگ ضائع ہو جاتا ہے اور یہ ماحول کے لیے خطرناک بن جاتا ہے۔ رنگ میں بہت سے زہریلے مواد شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر اسے صحیح طریقے سے تلف نہ کیا جائے تو یہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ گیارہ امریکی ریاستوں میں رنگ بنانے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ وہ بچا ہوا رنگ جمع کریں اور اسے مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔

 رنگ کا ڈبہ (Courtesy of Up Paint)
(Courtesy of Up Paint)

‘ اپ پینٹ’ ایک نئی کمپنی ہے اور یہ رنگ اکٹھے کرتی ہے، انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر 18 مختلف رنگوں میں دوبارہ فروخت کرتی ہے۔ یہ کمپنی رنگ میں سے گرد صاف کرتی ہے اور مختلف رنگوں کو آپس میں ملا سکتی ہے۔

کمپنی کے بانی ڈسٹن مارٹن بتاتے ہیں کہ اپ پینٹ غیر استعمال شدہ رنگ کو مخصوص جگہوں پر جاکر بغیر کسی قیمت کے جمع کرتی ہے۔ کمپنی رنگ تیار کرنے اور پیکنگ پر پیسے خرچ کرتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ “اس میں سب کا فائدہ ہے۔ یہ زمین کے لیے بہتر ہے اور صارفین کی جیب کے لیے بھی بہتر ہے۔”