2022 کی سرمائی پیرالمپک کھیلوں میں حصہ لینے والے اہم امریکی کھلاڑی [فوٹو گیلری]

4 سے لے کر 13 مارچ تک ہونے والی 2022 کی سرمائی پیرالمپک کھیلوں میں معذوریوں کے حامل دنیا کے ممتاز کھلاڑی 78 مقابلوں میں حصہ لیں گے۔ اس دوران وہ برف پر کھیلی جانے والوں کھیلوں میں شمولیت اور کمالِ فن کو فروغ دیں گے۔

اِن کھیلوں میں الپائن سکی اِنگ، کراس کنٹری سکی اِنگ، بائی ایتھلون، سنو بورڈنگ، پیرا آئس ہاکی اور وہیل چیئر کرلنگ کے مقابلے شامل ہوں گے۔

اِن کھیلوں میں امریکہ کی نمائندگی 67 کھلاڑی کریں گے۔ یہ کھلاڑی  اتنے ہی مختلف پسہائے منظر کے حامل ہیں جتنی مختلف کہ یہ کھیلیں ہیں۔ ان کھلآڑیوں میں سے ایک (اوپر  تصویر میں) الپائن سکی اِر، اینڈریو کورکا ہیں جن کا تعلق الاسکا سے ہے۔ انہوں نے پیانگ چانگ میں 2018 میں ہونے والے سرمائی پیرا لمپکس میں دو تمغے جیتے اِن میں سے ایک  ڈاؤن ہل سیٹنگ ریس میں سونے کا اور دوسرا سپر جائنٹ سلالم سیٹنگ ریس میں چاندی کا تمغہ تھا۔ 30 سالہ کُرکا نے اپنے دوسرے سرمائی پیرالمپکس سے قبل جنوری میں لیلے ہامر میں ورلڈ پیرا سنو سپورٹس چیمپئن شپ میں کانسی کا اپنا دوسرا تمغہ جیتا۔

2022 کے سرمائی پیرالمپکس میں حصہ لینے والے دیگر کھلاڑیوں میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے:-

ڈیکلن فارمر، بروڈی روئبال اور جین لی

 سونے کے تمغے دانتوں میں پکڑے ہوئے تین آدمی (© Harry Engels/Getty Images)
(© Harry Engels/Getty Images)

سلیج ہاکی کی امریکی ٹیم کے اِن تین کھلاڑیوں کو امید ہے کہ وہ امریکی ٹیم کی لگاتار چوتھا گولڈ میڈل جیتنے میں مدد کریں گے۔ 24 سالہ ڈیکلن فارمر، 23 سالہ بروڈی روئبال، اور 35 سالہ جین لی، سب سوچی اور پیانگ چانگ میں ہونے والے بالترتیب 2014 اور 2018 کے سرمائی لمپک مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ اوپر تصویر میں 2014 میں سوچی میں سونے کے تمغے لیے بائیں سے دائیں فارمر، روئبال اور جین لی کھڑے ہیں۔

فارمر کی دونوں ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں۔ روئبال ٹانگوں کے بغیر پیدا ہوئے۔ اِن دونوں کا تعلق ریاست ٹینیسی سے ہے۔ تائی پے میں پیدا ہونے والے، لی 8 برس کی عمر میں اپنے خاندان کے ہمراہ امریکہ آئے اور اب سان انتونیو  میں رہتے ہیں۔ لی امریکی فوج میں سٹاف سارجنٹ تھے۔ ایک حادثے کے نتیجے میں گھٹنے کے اوپر سے اُن کی بائیں ٹانگ  ضائع ہو گئی۔ ٹیم یو ایس اے کے ساتھ ایک انٹرویو میں لی نے کہا، “فوج ہمیں سکھاتی ہے، اور مجھے خاص طور پر سکھایا کہ حوصلہ نہیں ہارنا۔۔”

اوکاسا ماسٹرز

 سکی اِنگ کرتی ہوئی ایک عورت (© Ng Han Guan/AP Images)
(© Ng Han Guan/AP Images)

32 سالہ اوکاس ماسٹرز نے پیرا لمپکس میں 10 بار تمغے جیتے ہیں۔ انہیں کئی ایک کھیلوں پر عبور حاصل ہے۔  وہ 2022 کے سرمائی کھیلوں میں کراس کنٹری سکی اِنگ اور بائی ایتھلون میں حصہ لیں گی۔

یوکرین میں پیدا ہونے والی ماسٹرز، پنڈلی کی ہڈیوں کے بغیر پیدا ہوئیں جس کے نتیجے میں اُن کی دونوں ٹانگوں کو کاٹنا پڑا۔ جس ماں نے انہیں 7 برس کی عمر میں گود لیا وہ ریاست نیویارک کے بالائی علاقے میں رہتی تھیں اور بعد میں ریاست کنٹکی منتقل ہو گئیں۔ وہ موسم سرما کے کھیلوں (کراس کنٹری سکی اِنگ) اور گرمیوں کے کھیلوں (کشتی رانی اور ہینڈ سائیکلنگ) کے مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ پیانگ چانگ میں 2018 کے سرمائی پیرا لمپکس میں ماسٹرز نے دو طلائی تمغوں سمیت پانچ تمغے جیتے۔

یہاں اُنہیں پیانگ چانگ میں سکی اِنگ کرتے ہوئے اُس مقابلے میں دکھایا گیا ہے جس میں انہوں نے چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ حال ہی میں انہوں نے این بی سی اولمپکس ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے مختلف کھیل کھلینے والی کھلاڑی ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف کھیل کھیلنے سے پٹھوں کے کم استعمال اور کم تربیت میں مدد ملتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، “تین کھیلوں کو متوازن کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ میرا دماغ ہمیشہ تازہ، پرعزم اور حوصلہ افزا رہتا ہے۔”

ڈیوڈ سمسا اور اویونا یورانچی میگ

 وہیل چیئر کرلنگ کے مقابلے میں شامل ایک آدمی اور ایک عورت (© Andrea Verdelli/Getty Images)
(© Andrea Verdelli/Getty Images)

امریکہ کو امید ہے کہ وہ آنے والے سرمائی پیرالمپکس کے وہیل چیئر کرلنگ کے مقابلوں میں پہلی مرتبہ سونے کا تمغہ جیتے گا۔ اس ٹیم میں 56 سالہ ڈیوڈ سمسا اور 48 سالہ بٹوئن “اویونا” یورانچی میگ شامل ہیں۔ اوپر وہ دونوں 2021 کی ورلڈ وہیل چیئر کرلنگ چیمپئن شپ کے ایک مقابلے میں شریک ہیں۔

یورانچی میگ منگولیا میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ جب وہ عارضی طور پر امریکی ریاست منی سوٹا آئیں ہوئی تھیں تو ایک حادثے میں کمر سے نیچے اُن کا جسم مفلوج ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے منی سوٹا کو ہی اپنا گھر بنا لیا اور کرلنگ شروع کر دی۔ 2021 میں وہ پہلی بار عالمی چیمپئن شپ میں شریک ہوئیں۔

منی سوٹا میں ہی رہنے والے، سامسا نے 2019 میں اپنی پہلی عالمی چیمپئن شپ کھیلی اور تب سے وہ امریکی قومی ٹیم میں شامل چلے آ رہے ہیں۔ میڈیا آؤٹ لیٹ Wbay.com کے ساتھ بات کرتے ہوئے سمسا نے بتایا کہ ٹیم کے کھلاڑی وسکونسن، کولوراڈو، منی سوٹا اور کنیٹی کٹ کی ریاستوں میں رہتے ہیں۔ “آپ اپنے علاقے میں ہی برف پر پریکٹس کرتے ہیں اور پھر آپ اکٹھے ہو کر کھیلتے ہیں۔”

برٹنی کوری

 سنوبورڈ پر ایک عورت (© Buda Mendes/Getty Images)
(© Buda Mendes/Getty Images)

کولوراڈو کی رہنے والی 35 سالہ برٹنی کوری کو یہاں پیانگ چانگ میں 2018 کے سرمائی پیرا اولمپکس کے اُس مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں انہوں نے چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ اپنی ویب سائٹ پر وہ کہتی ہیں، “یہ احساس ہونا کہ میں اپنے ملک کی نمائندگی کر رہی ہوں ایک ایسی چیز ہے جسے میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ اب بھی جب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔”

13 سال کی عمر سے سنو بورڈنگ کرنے والی کوری کو 2003 میں کھیل کے دوران ایک ڈھلوان پر ٹخنے میں چوٹ آئی۔ کئی آپریشنوں کے بعد 2011 میں انہیں اپنی دائیں ٹانگ گھٹنے کے نیچے سے کٹوانا پڑی۔

سالٹ لیک سٹی ہسپتال میں رجسٹرڈ نرس کے طور پر کام کرنے کے باوجود کوری سخت تربیت کرتی ہیں۔ وہ 2022 کی پیرالمپک کھیلوں میں سنو بورڈر کے طور پر مقابلہ کریں گیں اور انہیں امید ہے کہ وہ  دوبارہ تمغہ جیتیں گیں۔

تھامس والش

 سکی اِنگ کرتا ہوا ایک آدمی (© Alex Livesey/Getty Images)
(© Alex Livesey/Getty Images)

کولوراڈو سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ تھامس والش دو برس کی عمر سے سکی اِنگ کرتے چلے آ رہے ہیں۔  وہ الپائن سکی اِنگ میں حصہ لیں گے۔

14 سال کی عمر میں اُن میں کینسر کی بیماری کی تشخیص ہوئی جس کے نتیجے میں انہیں کئی ایک آپریشن کروانے پڑے۔ اس کے علاوہ وہ کیموتھراپی اور تابکاری کے ذریعے بھی علاج کرواتے رہے۔ اس کے نتیجے میں اُن کا چلنا پھرنا کم ہو گیا اور اُن کے پھیپھڑے کمزور ہوگئے اور اب صرف 50 فیصد کام ک ر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کالج میں سکی اِنگ کی دریافت نے اِن کو ایک نئی دنیا سے روشناس کرایا۔

والش ایک تجربہ کار پیرا لمپیئن ہیں۔ انہوں نے 2018 میں پیانگ چانگ  پیرالمپکس مقابلوں میں حصہ لیا۔ اوپر تصویر میں وہ للیے ہامر میں ہونے والی 2021 ورلڈ پیرا سنو سپورٹس چیمپئن شپ کے ایک مقابلے میں شریک ہیں۔ “یاہُو! سپورٹس” کو حال ہی میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اولمپک سکی ار، میکائیلا شیفرین کا حوالہ ایک ایسی متاثرکن شخصیت کے طور پر دیا جو انہیں بحیثیت ایک کھلاڑی مزید سخت محنت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔