8888 کی سالگرہ کے موقع پر امریکہ کا برما کی جمہوریت کے لیے کوششوں کو خراج تحسین

امریکہ ایک طویل عرصے سے برمی عوام کی جمہوریت اور بنیادی آزدیوں کی جدوجہد کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔

تیتیس برس قبل، 8 اگست 1988 کو برمی عوام نے لاکھوں کی تعداد میں انسانی حقوق کے حق میں اور فوجی حکومت کے خاتمے کے لیے مظاہرے کیے۔ گو کہ فوج نے اِن مظاہروں کو بیدردی سے کچل دیا مگر یہ مظاہرے 8 اگست 1988 یعنی 1988 کے آٹھویں مہینے کی آٹھ تاریخ 8.8.88 ) کی مناسبت سے 8888 تحریک کے نام سے مشہور ہوگئے۔ یکم فروری 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد یہ مظاہرے جمہوریت کے لیے عوام میں جوش و جذبہ پیدا کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

برمی عوام کی مستقل جمہوری امنگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 8 اگست کو کہا، “آج ہم 8888 کی جمہوریت نواز تحریک اور برما کے عوام کی جمہوریت اور امن کے لیے کئی دہائیوں سے جاری جدوجہد کو یاد کر رہے ہیں۔ امریکہ برما کے اُن لوگوں کی حمایت کرنا جاری رکھے ہوئے ہے جو اپنے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کیے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔”

 عمارتوں کے سامنے سڑک پر جمع ہوتے ہوئے لوگ۔ (© Roselle Assirelli/AFP/Getty Images)
6 اگست 1988 کو مظاہرین مرکزی رنگون میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ (© Roselle Assirelli/AFP/Getty Images)

امریکی کاوشیں ظلم و جبر کو نشانہ بناتے ہوئے برمی عوام کی مدد کر رہی ہیں۔ امریکہ نے رنگون میں امریکن سنٹر اور منڈالے میں جیفرسن سنٹر میں قیادت کی تربیت فراہم کی ہے۔ ان سنٹروں میں مندرجہ ذیل خدمات فراہم کی گئیں:-

  • انگریزی زبان کی تعلیم۔
  • انٹرنیٹ کنکٹیویٹی (جڑت) سمیت لائبریری کی سہولتیں۔
  • آزادانہ تبادلہ خیالات اور ثقافتی تبادلوں کی خاطر معلومات اور مواقعوں تک رسائی۔

400 سے زائد وظائف، فیلو شپس اور تبادلوں کی پیشکش کر کے اِن سنٹروں نے برما کے عوام کو ترقی کے مواقع فراہم کیے۔

8888 تحریک کے خلاف کاروائیوں کے بعد، امریکی حکومت نے تجارتی ترجیحات کو معطل کرکے اور دیگر اقدامات کے ذریعے برما کی فوج پر پابندیاں لگا دیں تاکہ اسے اپنی کاروائیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے۔

 پولیس کا ایک ٹرک لوگوں کے ہجوم پر پانی پھینک رہا ہے۔ (© Linn Htet/AP Images) پولیس کا ایک ٹرک 8 فروری 2021 کو برما کے شہر نپیٹا میں احتجاجی مظاہرین پر پانی پھینک رہا ہے۔ (© Linn Htet/AP Images)

4 اگست کو برما کی حزب مخالف، این یو جی کے جلاوطن نمائندے زین مار آنگ کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے، نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے فوجی بغاوت کے تناظر میں برما میں جمہوریت کی راہ کی بحالی کے لیے کام کرنے والوں کے لیے امریکی حمایت پر زور دیا۔

دونوں نے کووڈ-19 کے بڑھتے ہوئے انفیکشن سے نمٹنے اور برما کے لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے بارے بھی تبادلہ خیال کیا۔

احتجاجی مظاہرین کے خلاف برمی فوج کی جانب سے کی جانے والی پرتشدد کاروائیوں کے نتیجے میں بہت سے بچوں سمیت 900 افراد ہلاک ہوئے۔ اِن پرتشدد کاروائیوں کے ردعمل میں امریکہ نے رواں سال میں برما پر دوبارہ پابندیاں عائد کیں۔ برمی حکومت 5,000 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لے چکی ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔

امریکہ اور شراکت دار ممالک نے بغاوت اور پرامن مظاہرین پر حملوں کے ذمہ دار برمی فوج کے عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں۔ اسی طرح امریکہ نے اُن برمی کمپنیوں پر بھی پابندیاں لگائیں ہیں جو فوجی حکومت کی مدد کرتی ہیں۔

بلنکن نے 11 فروری کو فوجی حکام کے خلاف پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “ہم برما کے باضابطہ طور پر منتخب کردہ  عوامی نمائندوں اور ان تمام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو پرامن طور پر اس قبضے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ فوجی حکومت  قتدار چھوڑنا چاہیے [اور] جمہوری طور پر منتخب حکومت کوبحال کرنا چاہیے۔”