معذوریوں والے امریکیوں کے بارے میں قانون (اے ڈی اے) کی منظوری کے سات سال بعد 26 جولائی 1990 کو، اوآئیڈوو وانچِگ نامی ایک منگولین نوجوان اپنے والد کے ہمراہ طبی علاج کی خاطر لاس اینجلیس پہنچے۔ وہیل چیئر استعمال کرنے والے وانچِگ، اے ڈی اے پر عملد درآمد کے ابتدائی ایام میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ شہر کتنا قابل رسا ہے۔
اُنہوں نے کہا “آپ بغیر کسی رکاوٹ کے وہیل چیئر پر جا سکتے تھے۔ آپ بس پکڑ کر وِلشائر بولیوارڈ سے سانتا مونیکا تک جا سکتے تھے اور اِس میں بالکل کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اور اُس دور میں، جب میں 17 برس کا تھا، یہ بڑی حیران کُن بات تھی۔ میں اِس طرح کے ماحول کا کبھی تصور تک نہیں کر سکتا تھا۔”
امریکہ کے اپنے بعد کے سفروں میں اُنہوں نے دیکھا کہ جس رسائی کا اُنہیں 1997ء میں تجربہ ہوا تھا وہ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ سے نکل کر کہیں آگے تک جا چُکی تھی۔ ہوٹلوں اور دیگر عوامی مقامات پر زیادہ کشادہ دروازے اور راہداریاں، اور وہیل چیئر کے لیے معقول اُونچائی والی میزیں اور ایسے ڈھلوانی راستے بنائے جا چکے تھے جو یا تو زینوں کی جگہ بنائے گئے تھے یا اُن کے متبادل تھے۔ معذوریوں کے حامل بین الاقوامی مسافروں کے لیے وزارت خارجہ رہنما اصول فراہم کرتی ہے جو یہ واضح کرتے ہیں کہ اُن کے سفر کو کس طرح بہترین طور پر قابلِ رسا، محفوظ اور پُر لطف بنایا جائے ۔
وانچِگ نے کہا کہ آج بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں معذوری کے حامل ایک شخص کے طور پر”آپ اپنی نمائندگی کر سکتے ہیں”.

اُنہوں نے کہا کہ گزشتہ 25 برسوں میں اے ڈی اے کی توسیع “(امریکہ میں ہر ایک کے لیے) ایک معیار کی بجائے ایک طرزِ زندگی بن چُکی ہے” اور غیر معذور لوگ بھی بہت سی سہولتوں سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں. وانچِگ کو، جو اب تک منگولیا میں رہتے ہیں، امید ہے کہ یہ قانون، ڈیزائنروں اور ماہرِ تعمیرات کو اُس وقت “سب کے لیے ایک آفاقی ڈیزائن” کی سوچ کی طرف مائل کرے گا جب اُن کے ذہن میں تصورات جنم لیتے اور ترتیب پاتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اے ڈی اے نے رسائی اور انسانی حقوق کے حوالے سے “تبدیلیاں لانے کی خاطر دنیا کو بہت سا تجربہ اور تحریک دی ہے۔” اُنہوں نے مستقبل میں اِس طرح کے مزید اقدامات کی پیش گوئی کی اور یہ دلیل دی کہ انسانیت میں سب سے بڑے دو تفاوات کی بیناد صِنف اور اِس پر ہے کہ آیا لوگ معذور ہیں یا نہیں۔
اُنہوں نے کہا، “انسان اے ڈی اے پر آکر رُک نہیں جائیں گے۔ وہ ایسے نظریات یا اصولوں یا فلسفے پر بات کریں گے جو انسانوں کے دو سب سے بڑے حصوں کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔”