اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر، نِکی ہیلی نے 18 دسمبر کو کہا، “یروشلم ہزاروں سالوں سے یہودی قوم کا سیاسی، ثقافتی، اور روحانی وطن چلا آ رہا ہے۔ کوئی دوسرا شہر اُن کا دارالحکومت نہیں رہا۔”
ہیلی نے یہ بیان امریکہ کی اقوام متحدہ کی اُس قرارداد کے مسودے کو ویٹو کیے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے دیا جس کے نتیجے میں امریکہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیے جانے کے اپنے فیصلے سے دستبردار ہو جائے۔
جب 6 دسمبر کو صدر ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ امریکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے، تو انہوں نے امریکہ کے سفارت خانے کی وہاں متنقلی کے منصوبے کو متحرک کر دیا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے اس مسودے میں، جسے امریکہ نے ویٹو کیا ہے تمام ممالک سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ “یروشلم کے مقدس شہر میں اپنے اپنے سفارتی مشن قائم کرنے سے باز رہیں۔”
ہیلی نے کہا، ” امریکہ کو کوئی ملک یہ نہیں بتا سکتا کہ اسے اپنا سفارت خانہ کہاں قائم کرنا ہے۔”
ہیلی نے اس بات پر زور دیا کہ صدر ٹرمپ کا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا، اسرائیل اور امن کے لیے امریکہ کی دیرینہ حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔
ہیلی نے کہا، “امریکہ مشرق وسطٰی میں امن کے لیے بدستور پُرعزم ہے۔ ہم امن کے لیے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے پہلے بھی اتنے ہی پُرعزم تھے جتنے پُرعزم ہم آج ہیں۔”