آج سے سو سال پہلے روس میں بالشویک انقلاب کے نتیجے میں دنیا کی پہلی اشتراکی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد بہت سے دیگر ممالک میں بھی اشتراکیت آئی جس میں ‘مثالی معاشرے’ قائم کرنے کے لیے انسانوں کو کل پُرزوں کی طرح استعمال کیا گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں کئی سال کے عرصے میں 10 کروڑ معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ امریکہ پہلے اشتراکی انقلاب کی سالگرہ کو اس ماہ اشتراکیت کے متاثرین کے حوالے سے قومی دن کے طور پر منا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا، “آج ہم انہیں یاد کر رہے ہیں جنہوں نے اشتراکیت میں جانیں گنوائیں اور جو بدستور مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی یاد میں  …  آج ہماری قوم روشن اور آزاد مستقبل کے آرزومندوں کے لیے آزادی کی مشعل جلانے کے پختہ عزم کا اعادہ کرتی ہے۔”

1917 میں ولاڈیمیر لینن کی قیادت میں ایک اقلیتی بالشویک دھڑے نے زار نکولس دوم کی حکومت کا تختہ الٹ کر روس میں صدیوں سے جاری شاہی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ 1922 میں خانہ جنگی کے بعد بالشویکوں نے ایک نیا ملک بنایا جس کا نام ‘یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس’ رکھا گیا۔

Men, women and children in rude clothing marching as group, holding farm implements and banner (© Bettmann/Getty)
1931 میں کسان اجتماعی طور پر کام کرنے کے لیے کھیتوں کی جانب جا رہے ہیں۔ (© Bettmann/Getty)

سوویت یونین میں ابتدا ہی سے خفیہ پولیس نے حزب اختلاف کے لوگوں کو اجتماعی پھانسیاں دینے کی مہم پرعمل درآمد شروع کیا جس کا مقصد آزادی کا خاتمہ اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے معاشرے سے چھٹکارا پانا تھا۔ یہ ہلاکتیں جوزف سٹالن کے دور میں بھی جاری رہیں جو لینن کے بعد سوویت لیڈر بنا۔ سٹالن نے لاکھوں کسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ریاست کے زیراہتمام کاشتکاری کے لیے ان کی جائیدادیں قومیا لیں۔ سٹالن کی جانب سے لوگوں کو زیر کرنے کے لیے لائے گئے مصنوعی قحط میں مزید لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں۔

سٹالن کی خفیہ پولیس نے عام شہریوں اور سٹالن کے ممکنہ  سیاسی حریفوں کو ہلاک کیا جس کے نتیجے میں 600,000  سے زائد لوگ قتل کر دیئے گئے۔ گولاگ کے نام سے جانے جانے والے جبری مشقتی کیمپوں میں سٹالن نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو شہر بدر کرکے قید میں ڈال دیا۔

اشتراکیت کا پھیلاؤ

بالشویک انقلاب کے بعد چین، کمبوڈیا، کیوبا، لاؤس، شمالی کوریا اور ویت نام میں بھی اشتراکی حکومتیں قائم ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم میں سرخ فوج کے ذریعے نازی حکومت سے آزادی پانے والے بہت سے یورپی  ممالک کو بھی اشتراکی نظام حکومت اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔

گزشتہ صدی میں اشتراکی ممالک کے شہریوں کو وسیع پیمانے پر جلاوطنی، جبری مشقت، ریاستی دہشت گردی اور بھوک کا سامنا رہا کیونکہ ان کی حکومتوں نے اُن کی آزادیاں سلب کر لی تھیں اور انفرادیت کو جبراً دبا دیا تھا۔

Large pile of bones with blindfolded skull on top (© Alex Bowie/Getty Images)
نوم پن کے نواح میں زمین سے برآمد ہونے والی انسانی باقیات۔ کھمیر روژ حکومت نے قتل عام کے بعد لوگوں کو ان اجتماعی قبروں میں دفنا دیا تھا۔ (© Alex Bowie/Getty Images)

صدر ٹرمپ نے 7 نومبر کو اشتراکیت کے متاثرین کے لیے قومی دن قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا، “آزادی کے جھوٹے نعرے کے تحت ان تحریکوں نے سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت معصوم لوگوں کو آزادانہ عبادت، اجتماع کی آزادی اور بے شمار ایسے حقوق سے محروم کر دیا جنہیں ہم بے حد مقدس جانتے ہیں۔”

انہوں نے کہا، “آزادی کے آرزو مندوں کو ریاست نے جبر، تشدد اور خوف کے ذریعے غلام بنا  ڈالا۔”

Soldiers and other people standing around opening in concrete wall (© AP Images)
1989 میں مشرقی جرمنی کے سرحدی محافظ دیوار برلن کے اُس پار جھانک رہے ہیں جہاں مظاہرین نے برینڈن برگ گیٹ کے قریب اس دیوار کے ایک حصے کو گرا دیا تھا۔ (© AP Images)

‘کمیونزم میموریل فاؤنڈیشن’ سے تعلق رکھنے والے اشتراکیت کے متاثرین کو حال ہی میں ‘ٹرومین ریگن میڈل آف فریڈم’ پیش کیا گیا جو سابق امریکی صدور ہیری ٹرومین اور رونلڈ ریگن کے نام پر جاری کیا گیا ہے۔ یہ سالانہ ایوارڈ ایسے افراد اور اداروں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے آزادی اور جمہوریت کو فروغ دیا اور جو اشتراکیت اور جبر کی دیگر اقسام کے خلاف ہنوز جدوجہد کر رہے ہیں۔

فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر میریون سمتھ،  مغرب اور وسطی و مشرقی یورپ کے اشتراکی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ” آج کی رات پُرمسرت بات یہ ہے کہ ہم یہ خوشی بھی منا سکتے ہیں کہ 1989 میں آہنی دیوار گرا دی گئی تھی اور کروڑوں لوگوں — بلکہ پوری کی پوری اقوام  —  نے آزادی پائی۔ امریکہ اور آزاد دنیا کے دوسرے ممالک فخریہ طور سے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اشتراکی سامراج کا مقابلہ کرنے، اسے محدود کرنے اور اسے پیچھے دھکیلنے میں ناگزیر کردار ادا کیا۔”

یہ مضمون فری لانس مصنف، لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔