
واشنگٹن میں قران پاک کے ایسے 60 سے زائد انتہائی اہم قلمی نسخوں کی نمائش کی جارہی ہے جن کے صفحات شاندار خطاطی اور باریکیت اور سنہری مصوری سے بھرے پڑے ہیں۔ مختلف رنگوں سے مزین یہ نسخے دنیائے عرب، ترکی، ایران اور افغانستان سے لائے گئے ہیں اور مختلف ادوار میں عالم اسلام میں فن خطاطی کی ترویج و ترقی کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ یہ نسخے نمائش میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

سمتھ سونین میوزیم کی آرتھر ایم سیکلر گیلری میں، قرآن کا آرٹ: ترک اور اسلامی آرٹ کے عجائب گھروں سے لائے ہوئے خزانے کے عنوان سے ہونے والی نمائش 20 فروری، 2017 تک جاری رہے گی۔ اس نمائش سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قرآن کا ابتدا میں زبانی طور پر پھیلائے جانے والے پیغام سے تحریری شکل میں ہونے والا وہ ارتقا کس طرح ہوا جس کے نتیجے میں ایک تخلیقی جدت طرازی ظہور میں آئی۔
نمائش کی نگران معصومہ فرہاد کا کہنا ہے کہ جب قرآن تحریری شکل میں تیار ہو گیا تو اس کے بعد خطاطوں نے “ابتدا میں، 114 سورتوں کی سادہ آرائشی طریقوں سے نشانبندی شروع کی۔” وہ کہتی ہیں، “اس کے بعد سونے کا کام کرنے والوں نے ہر سورۃ کے عنوان اور ہر آیت کے اختتام کے نشانات کو سنہرہ کرنا شروع کیا۔ قرآن کے بہت سے نسخوں کو 30 سپاروں میں تقسیم کردیا گیا، تاکہ مسلمان ایک مہینے کے اندر پورے قرآن کی تلاوت مکمل کرسکیں۔‘‘
فرہاد کہتی ہیں کہ نمائش میں رکھے ہوئے ان مسودوں سے، جن کی تاریخ تقریباً 1,000 برسوں پر محیط ہے اور جس میں آٹھویں صدی عیسوی کے دمشق سے لے کر 17 ویں صدی کا استنبول تک شامل ہیں، ہمیں اُس ” فن خطاطی اور آرائشی تحریر کے مختلف اسالیب کی زبردست وسعت اور تنوع کا اندازہ ہوتا ہے،” جس کا تعلق دنیائے اسلام سے ہے۔ فرہاد کے مطابق “یہ فن مسودوں اور ان کے ساتھ ساتھ آرٹسٹوں اور خطاطوں کی نقل مکانی کے باعث مختلف شہروں میں پروان چڑھا اور ایک مرکز سے دوسرے مرکز کو منتقل ہوتا چلا گیا۔”

سے تعلق رکھتا ہے۔ (Courtesy of Istanbul Museum of Turkish and Islamic Arts)

اسی کے ساتھ ساتھ پاکبازی اور سیاسی طاقت کی ایک علامت کے طور پر بھی قرآن کے انتہائی مزین نسخے سامنے آئے۔
عثمانی حکمرانوں کے لیے تیار کیے جانے والے قرآن کے نسخوں کو بہت قیمتی سمجھا جاتا تھا اور انہیں سیاسی یا فوجی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لیے تحفے کے طور پیش کیا جاتا تھا۔ قرآن کے نسخے درگاہوں اور مساجد جیسے اداروں کو عطیہ بھی کیے جاتے تھے، جس کا مقصد عطیہ کرنے والوں کی پارسائی کی شہرت کو بڑھانا ہوتا تھا۔ شاہی خاندان کی خواتین مذہب اور عصری معاشرتی زندگی کے ساتھ اپنے لگاؤ کی علامت کے طور پر لائبریریوں اور سکولوں کو قرآن کے نسخے عطیے کے طور پر بھجوایا کرتی تھیں۔
سیکلر گیلری میں جاری نمائش میں رکھے ہوئے قرآن کے ہر نسخے کی اپنی الگ الگ کہانی ہے۔ ان میں بیشتر مسودے استنبول کے میوزیم آف ٹرکش اینڈ اسلامک آرٹس سے مستعار لیےگئے ہیں اور کچھ سمتھ سونین میوزیم کی فریراور سیکلر گیلریوں کے انفرادی مجموعوں کا حصہ ہیں۔
فرہاد نے کہا ” اگرچہ قرآن کے ہر نسخے کا متن ایک ہی ہے، مگر ان میں سے ہر نسخے کو آرٹسٹوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں نے اسے آرٹ کا ایک منفرد نمونہ بنا کر رکھ دیا ہے۔”