کیا کسی سکول کی کوئی سرگرمی آپ کو نامہ نگار بنا سکتی ہے؟ شیئر امریکہ نے اس بارے میں پرنسٹن یونیورسٹی کے روزنامے کی سابق مدیرہ، اناستاسیا لائیڈ ڈومیانو وچ سے پوچھا کہ انہوں نے اپنے تجربے سے کیا سیکھا۔
جب میں نے پرنسٹن یونیورٹی میں اپنے سالِ دوئم کے موسم خزاں میں روزنامہ پرنسٹونین میں کام کرنا شروع کیا تو میں نے سمجھا کہ یہ تعلیمی کام کے علاوہ ایک ثانوی مشغلہ ہے۔ لیکن تین برسوں کے دوران جب میں نامہ نگار سے ترقی کرتے کرتے نیوز ایڈیٹر بنی تو مجھے احساسں ہوا کہ میں نے اپنی سوچ سے کہیں زیادہ بڑھکر، عملی اور اخلاقی دونوں طرح کی، گہری تعلیم حاصل کی ہے۔

“دی پرنس” کے سٹاف رائٹر کی حیثیت سے شروع شروع میں میری کہانیوں کے لیے موضوعات مجھے ایڈیٹر دیا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے میرا تجربہ بڑھتا گیا ویسے ویسے میں خود اپنے موضوعات کا انتخاب کرنے لگی۔ ہر اتوار کو میں کسی ایسے موضوع کے بارے میں خلاصہ ایڈیٹروں کو ای میل کیا کرتی تھی جس کے بارے میں میں لکھنا چاہتی تھی۔
کبھی کبھار ایسا ہوتا تھا کہ میرا یا کسی دوسرے نامہ نگار کا اپنی کہانی کے ذرائع سے بہت قریبی تعلق نکل آتا تھا؛ ایسا اس وقت ہوتا تھا جب ہماری کہانیوں کا تعلق ہمارے پروفیسروں یا دوستوں سے ہوتا تھا۔ ایسے موقعوں پر ایڈیٹر، اُن ذرائع کو انٹرویو کرنے کا کام کسی دوسرے نامہ نگار کے سپرد کردیتے اور اس طرح کہانی کی غیر جانبدار رپورٹنگ کو یقینی بنا دیتے تھے۔
ایک خبر رساں ادارے کی حیثیت سے ہم اپنا اعتبار قائم رکھنے کے لیے، اداریوں میں اپنی پالیسیوں کا جواز پیش کرتے تھے اور اپنے نامہ نگاروں کے “متصادم مفادات” کو بھی ظاہر کرتے تھے۔
یونیورسٹی سے آزاد اور مخصوص مفادات کا تابع ہوئے بغیر، پرنس ایسی متنازع کہانیاں بھی شائع کرتا ہے جو کیمپس کے ڈائننگ ہالوں اور ہماری ویب سائیٹ کے تبصرے کے کالموں میں بحث کا موضوع بنتی ہیں۔ ماضی میں اس قسم کی کہانیوں کا تعلق بھنگ رکھنے پر کسی طالب علم کی گرفتاری سے لیکر، طالبات کو جنسی حملے سے تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی پر عمل در آمد کے ذمے دار انتظامیہ کے اُن عہدے داروں سے ہوتا تھا، جن پر بعض کہانیوں میں یہ کہہ کر تنقید کی جاتی ہے کہ ان کے اقدامات ناکافی ہیں۔
ہماری کہانیوں میں غفلت یا اختیارات کے ناجائز استعمال پر روشنی ڈالنے کے نتیجے میں کیمپس کمیونٹی نے عملی اقدامات کیے۔ ایک مضمون میں جب یہ بتایا گیا کہ یونیورسٹی نے جنسی حملوں سے متعلق ایک سروے کے نتائج کو دبایا ہے، تو طلبا کے احتجاج کے نتیجے میں انتظامیہ کے عہدے داروں کو تمام طلبا کا دوبارہ سروے کرنا پڑا اور طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف نئے اقدامات کا اعلان کرنا پڑا۔
پرنس کے نامہ نگار زیادہ تر “آن ریکارڈ” انٹرویو کرتے ہیں۔ اپنے قارئین کی جانب سے کسی ایسے تاثر سے بچنے کے لیے کہ ہمارے ذرائع افواہیں پھیلانے کے لیے پرنس کو استعمال کرتے ہیں، ہم اپنے ذرائع کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ نامہ نگاروں کے ساتھ آن ریکارڈ بات کریں۔ ہم اطلاعات کی کسی دوسرے ذریعے سے بھی تصدیق کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ذرائع صرف “نام ظاہر نہ کرنے کی شرط” یا “آف دی ریکارڈ” بات کرنے پر رضامند ہوتے ہیں۔

پرنس کے مدیرہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اخبار کی کارگزاریوں اور اپنی غلطیوں کے بارے میں شفاف رہیں۔ ہم نے اپنی رپورٹنگ کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کرنے کے لیے ایک ضابطہ اخلاق شائع کر رکھا ہے۔ ہمیں جب کبھی رپورٹنگ میں یا ایڈٹنگ کے دوران کسی واقعے کے بیان میں کسی غلطی کا پتہ چلتا ہے تو ہم اگلے دن آن لائین اور اخبار کی اشاعت، دونوں میں اس کی تصحیح جاری کر دیتے ہیں۔ قارئین کا اعتماد حاصل کرنے میں غلطیوں کا اعتراف بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پرنس کا اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ایک لحاظ سے اس کے لیے قابل فخر بات ہے۔
وہ کام جو صحافی کرتے ہیں :
تیاری کرنا
اِس مرحلے پر یہ نکات طے کیے جاتے ہیں: کہانی تجویز کرنا اور مناسب ذرائع کی ایک مختصر فہرست تیار کرنا اور اس بات کی وضاحت پیش کرنا کہ یہ کہانی بر وقت ہے یا اس کا تعلق کسی پہلے شائع ہونے والی کہانی سے جڑا ہوا ہے۔
متصادم مفادات کو عیاں کرنا
مفادات کے ممکنہ تصادم سے مراد کسی نامہ نگار کا موضوع، خبر/کہانی کے ذریعے یا میڈیا کے کسی ادارے کے ساتھ تعلق ہونا ہے۔ تصادم کو عیاں کرنے کی جیتی جاگتی مثال یہ ہے: “میں نے 2012ء کے موسم گرما میں محکمہ خارجہ میں ایک انٹرن کی حیثیت سے کام کیا جو کہ شیئر امریکہ شائع کرتا ہے۔”
دونوں اطراف کا موقف بیان کرنا
پرنس کے نامہ نگاروں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی منفی واقعے کی رپورٹنگ سے تعلق رکھنے والے سب لوگوں یا اداروں سے ان کا ردعمل حاصل کرنے کوشش کریں۔
انٹرویو کے اصولوں کی پابندی کریں
“آن دا ریکارڈ” کا مطلب ہے کہ کوئی ذریعہ کسی نامہ نگار کو جو کچھ بتاتا ہےاسے مکمل طور پر رپورٹ اور اُس ذریعے سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔ “نام ظاہر کیے بغیر” کا مطلب یہ ہے کہ نامہ نگار کسی ذریعے کا نام افشاء کیے بغیر اس کی فراہم کردہ اطلاعات کو اپنی کہانی میں استعمال کرسکتا/سکتی ہے۔ “آف دا ریکارڈ” کے معنی ہیں کہ نامہ نگار فراہم کردہ اطلاعات کو قطعاً شائع نہیں کرسکتا/سکتی، لیکن وہ انہیں واقعے کے سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیے استعمال کرسکتا/سکتی ہے۔
غلطیوں کی تصحیح کرنا
ہم پرنس میں یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ “تصحیح: رپورٹنگ میں کسی غلطی کی وجہ سے اس مضمون کی پہلی اشاعت میں واقعے کی نوعیت غلطی سے ـــــــــــ بتائی گئی۔ یہ واقعہ اس طرح ــــــــ ہوا۔ ’پرنس‘ اس غلطی پر معذرت خواہ ہے۔”