امریکی کانگریس میں حکومتی اخراجات اور محاصل پر رائے شماری ہوتی ہے۔ اس رائے شماری میں ارکان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ پسندیدہ امور پر ان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ تاہم جب حقیقی طور پر واجبات کی ادائیگی کا معاملہ آتا ہے تو یہ عمل تھوڑا سی پیچیدگی اختیار کر جاتا ہے۔
وفاقی حکومت کے قرض لینے کی ایک قانونی حد ہے جسے قرض کی حد کہا جاتا ہے۔ امکان ہے کہ بہت جلد خبروں میں اس کا دوبارہ تذکرہ ہو گا۔
کانگریس بجٹ میں آمدنی سے بڑھ کر اخراجات کی منظوری دیتے ہوئے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے قرض کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرتی ہے۔ ہر سال یہ فرق یا خسارہ ملک کے مجموعی قرضے میں شامل ہو جاتا ہے۔
8 دسمبر تک ایک طریقِ کار کے تحت وفاقی حکومت کے پاس اپنے تمام واجبات ادا کرنے کے لیے خاطر خواہ رقم ہو گی۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ اس طریق کار پر صدر نے ستمبر میں دستخط کیے تھے۔
مگر قرض کی حد میں ایک اور اضافے کے بغیر امریکہ اپنے واجبات ادا کرنے کے قابل نہیں ہو گا اور مارچ 2018 تک ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔ یہ بات ‘دوطرفہ حکمت عملی کے مرکز’ نامی ایک ادارے نے بتائی ہے۔ واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے اس ادارے میں دونوں بڑی امریکی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سابق اراکینِ کانگریس شامل ہیں۔
اگر کانگریس کوئی قدم نہیں اٹھاتی اور حکومت کے پاس واقعتاً رقم ختم ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ فروخت کنندگان اور لوگوں کو ادائیگی نہیں ہو سکے گی۔ امریکی بانڈز یا وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ دیگر اقسام کے قرضہ جات خریدنے والے لوگوں کو اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے پریشانی لاحق ہو جائے گی جس سے ممکنہ طور پر مالیاتی منڈیوں میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا ہوجائےگی۔
‘امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ’ کے ریذیڈنٹ سکالر ایلن ویئرڈ کہتے ہیں، “ایک بات بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے نہیں ہونے دینا چاہتے۔”
بجٹ سے متعلق امور کے ماہر اور ‘کورویز ایم ایس ایل گروپ’ کے ایگزیکٹو نائب صدر سٹین کولینڈر کا کہنا ہے کہ امریکی نظام اس لحاظ سے انوکھا ہے کہ اس میں قانون ساز اخراجات کی اور قرض کی الگ الگ منظوری دیتے ہیں۔ “یہ نظام دنیا کے بیشتر ممالک سے مختلف ہے۔”
جب بھی ملک قرض کی مقررہ حد کے قریب پہنچتا ہے تو محکمہ خزانہ اپنے قرضوں پر دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اکاؤنٹنگ اور دیگر کاوشوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ کانگریس آخرِکار قرض کی حد میں اضافے یا اسے کچھ دیر کے لیے معطل کرنے پر رضامند ہو جاتی ہے۔ محکمہ خزانہ کے مطابق تازہ ترین توسیع سے قبل کانگریس اب تک مزید قرض کی اجازت دینے کے لیے 78 مرتبہ رائے شماری کر چکی ہے۔
کانگریس نے 1917ء میں دوسرے ‘لبرٹی بانڈ ایکٹ’ کے تحت قرض کی حد مقرر کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اس قانون سے ملک کی پہلی جنگ عظیم میں شرکت کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملی۔ 1939ء میں اس نے بانڈز ار دوسری طرز کے قرضہ جات کو اکٹھا کرکے 45 ارب ڈالر کی مجموعی حد مقرر کی۔
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ قرض کی حد سے نجات ملنی چاہیے تاکہ کانگریس کو بار بار پہلے سے منظور کردہ اخراجات کے لیے ادائیگی کی فکر نہ رہے۔ تاہم بعض لوگ قرض کی حد کو، اخراجات کو قابو میں رکھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے لیے کانگریس کو آمدنی سے بڑھ کر اخراجات کے لیے کھلے عام رائے شماری کرانا پڑتی ہے۔
امریکی سینیٹ کے اعزازی مورخ ڈونلڈ رچی کہتے ہیں کہ قرضے کے حوالے سے ایسا دیوالیہ پن سنگین نوعیت کا حامل ہوتا ہے جس سے حکومتی امور معطل ہونے کا اندیشہ ہو۔
رچی کے مطابق “عوام حکومت کے چلتے رہنے کی توقع رکھتے ہیں۔ انہیں توقع ہوتی ہے کہ انہیں پنشن کے چیک ملتے رہیں، قومی پارک کھلے رہیں اور سرکاری فون لائنیں کام کرتی رہیں۔”
یہ مضمون فری لانس مصنف، ٹامارا لائٹل نے تحریر کیا۔