جب تنزانیہ کے وکیل ہیری ایمینوئیل نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک شخص کے بھائیوں اور بیوہ ماں کو کس طرح ان کے وراثت کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے، تو انھوں نے عدالت میں ان کا مقدمہ لڑنے اور اُنہیں اُن کا جائز حصہ دلانے میں اُن کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
روایتی طور پر، جب تنزانیہ میں کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کی جائیداد یا تو اس کے بالغ بیٹوں کو ورثے میں مل جاتی ہے اور اگر اس کے بچے نابالغ ہوں تو پوری جائیداد دوبارہ اس کے خاندان کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ عورتوں کو اس پورے عمل سے مکمل طور پر باہر کر دیا جاتا ہے۔
ایمینوئیل نے کہا کہ بیشتر رسم و رواج کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ برابر کے سلوک کی مستحق نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا، “یہ عقیدہ زندگی کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی، تمام پہلوؤں پر حاوی ہے۔ لہٰذا جب بات وراثتی حقوق کی ہوتی ہے، تو عورتوں کی حد تک تو یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔” ایمینوئیل نے عورتوں اور یتیم بچوں کے وراثتی حقوق کے دفاع کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کر رکھی ہے۔
تنزانیہ اور دوسرے بہت سے افریقی ممالک نے عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی تمام اشکال کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر رکھے ہیں اور اس کی توثیق کی ہوئی ہے۔ اِن ممالک میں ایسے قوانین موجود ہیں جن میں واضح طور سے کہا گیا ہے کہ عورتوں اور نابالغ بچوں کو وراثت کے حقوق حاصل ہیں۔ اصل مشکل یہ ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کیسے کیا جائے اور ہر ایک کو ان کے حقوق سے آگاہ کر کے، برسوں کے امتیازی سلوک کا خاتمہ کیسے کیا جائے۔

وکیل ہنری وِساکا کلُوبا بھی عورتوں اور نابالغوں کی وراثت کے کیس لڑتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک یوگنڈا میں، اگرچہ ایسے قوانین موجود ہیں جن میں عورتوں کو وراثت کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن “رسم و رواج کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ قانون کی پابندی کے مقابلے میں، رسم و رواج سے وفاداری زیادہ اہم ہو گئی ہے۔”
کولوُبا کے مطابق، “جہاں تک اس قابلِ نفرت رواج کو چیلنج کرنے کا تعلق ہے، قانونی محاذ پر کافی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن دیہات میں رہنے والی عورت جسے اس ماحول میں سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے، کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور خاموشی سے ظلم برداشت کرتی رہتی ہے۔”
کلوُبا بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ، بہت سی عورتیں باقاعدہ شادی کے بغیر مردوں کے ساتھ زندگی گذارتی رہتی ہیں۔ قانون اس تعلق کو قانونی شادی تسلیم نہیں کرتا اور ان کا شریک حیات جانتا ہے کہ وہ وراثت کی حقدار نہیں ہیں۔
کلوُبا اور ایمینوئیل دونوں اپنی کم قیمت قانونی خدمات کے ذریعے ضرورت مند اور بے آسرا لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ ایسے مفروضات کی بھی بیخ کُنی کرتے ہیں جن کے مطابق قانونی وارثان کے طور پر عورتیں اپنے نئے حقوق استعمال نہیں کرپاتیں۔
معاشرے کے لیے اس کی قیمت
جب عورتوں کو وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے، تو بچے اور عورتیں زیادہ تعداد میں بھیک مانگنے یا جسم فروشی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ایمینوئیل نے بتایا کہ اس صورتِ حال میں تبدیلی کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک تو ایسی عورتیں جو یہ احساس نہیں کرتیں کہ وہ وراثت کی حقدار ہیں، اور دوسرا بہت سے لوگوں میں اپنی وصیت تحریر نہ کرنے کے رجحان کا پایا جانا۔
ایمینوئیل نے ایک ای میل میں لکھا، “میرے خیال میں پورے افریقہ میں یہ واہمہ موجود ہے کہ اگر آپ اپنی وصیت تحریر کریں گے، تو گویا آپ اپنی موت کو آواز دیں گے! کتنی احمقانہ بات ہے! حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اپنی وصیت تحریر کریں یا نہ کریں، موت تو یقینی ہے، اور آپ کو ایک نہ ایک دن ضرور مرنا ہے!” انھوں نے جائیداد کی منصوبہ بندی کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے اور بتایا ہے کہ اپنے لواحقین کے حقوق کس طرح محفوظ کیے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے وصیت لکھنے میں 5,000 سے زیادہ لوگوں کی مدد کی ہے۔
ایمینوئیل بتاتے ہیں کہ عورتیں اس لیے بھی اپنی وراثت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں کیوں کہ وہ اپنے حقوق اور ضابطوں سے ناواقفیت کی بنا پر، عدالت تک جانے میں بہت دیر کر دیتی ہیں۔
انھوں نے کہا، “ہو سکتا ہے کہ ایک بیوہ کا کیس بہت مضبوط ہو، اور وہ واقعی وراثت کی حقدار ہو، لیکن اس کا دعویٰ اس قانون کی وجہ سے مسترد ہو جاتا ہے جس کے تحت ایک مقررہ مدت کے اندر مقدمہ دائر کرنا ضروری ہوتا ہے۔”
ایمینوئیل کا کہنا ہے کہ لوگ اپنی کمیونٹی میں یہ بات یقینی بنانے میں مدد کر سکتے ہیں کہ عورتوں کو اپنے وراثت کے حقوق کا علم ہو، انہیں یہ بات معلوم ہو کہ انہیں کون سی دستاویزات کی ضرورت ہوگی، اور ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے انہیں کہاں سے مدد مل سکتی ہے۔ انھوں نے کہا، “کہا جاتا ہے کہ جب آپ ایک عورت کو تعلیم دیتے ہیں، تو پورے معاشرے کو تعلیم دے دیتے ہیں۔”