ایک طبی کارکن جمہوریہ کانگو کے شہر کنشاسا میں، ایک بچے کو زرد بخار کی اصلی ویکسین لگا رہا ہے۔ (© AP Images)

2015ء میں جب جمہوریہ کانگو کے ایک دیہی صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور بڑے ایک تکلیف دہ عضلاتی بیماری کا شکار ہوئے تو ڈاکٹروں کے ذہن میں آیا کہ گردن توڑ بخار کی وبا پھوٹ پڑی ہے۔

درحقیقت اِن دیہاتیوں کو ایک سفاکانہ مسئلے کا سامنا تھا جس کا شکار عموماً غریب لوگ ہوتے ہیں اور یہ مسئلہ جعلی دواؤں کا تھا۔ طبی جریدے ” لینسٹ گلوبل ہیلتھ “ میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق کانگو کے لوگوں نے انجانے میں دماغی بیماری کی دوا لے لی تھی جس پر جعلسازی سے سکون بخش دوا ‘ ڈایازپیم ‘ یا ‘ ویلیم ‘ کے لیبل لگائے گئے تھے۔ یہ دوا لینے سے گیارہ ہلاکتیں ہوئیں جن میں پانچ بچے شامل تھے۔

جعلی یا غیرمعیاری ادویات بدستور ایک عالمی مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو اس مسئلے کا سامنا ہے جہاں غیرقانونی مارکیٹوں سے طاقتور اور غلط نام سے بیچی جانے والی دوائیں خریدی جا سکتی ہیں یا کلینک، ہسپتال اور دواخانے بےخبری میں انہیں [مریضوں کو] دے دیتے ہیں۔

Box full of pill packets (© Dominique Faget/AFP/Getty Images)
حکام نے 2008ء میں بھارت سے افریقہ بھیجی گئی 2 ملین جعلی گولیاں پکڑیں جو طاقتور جرمن مسکن دواؤں اور سوئزرلینڈ میں بنائی جانے والی انسداد ملیریا کی دواؤں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ (© Dominique Faget/AFP/Getty Images)

عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ جعلی ادویات کے ایک بڑے حصے کا تعلق انسدادِ ملیریا اور جراثیم کش دواؤں سے ہے۔ ادارے کی عہدیدار پرنیٹ بورڈیلون ایسٹیو نے گزشتہ برس ایک ورکشاپ کو بتایا، “اگرچہ ہر واقعہ مختلف ہوتا ہے … مگر بنیادی طور پر یہ سب پیسے کا معاملہ ہے۔”

یہ ملیریے جیسے مسئلے کے اندر ایک اور مسئلہ ہے۔ ملیریا ایک قابل علاج بیماری ہے جو آج بھی ہر سال 4 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لیتی ہے اور ان میں ایک بڑی تعداد زیریں صحرائی افریقہ کے بچوں کی ہوتی ہے۔

کانگو کے معاملے میں ‘ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز’ نامی تنظیم کے طبی عملے کو اس بات کا یقین تھا کہ دماغی مرض کی دوا ‘ہیلو پیری ڈال’ کو جان بوجھ کر غلط نام دیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک تنبیہ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ  یوگنڈا کے شہر کمپالا میں دوائیں سپلائی کرنے والا ایک سپلائر جعلی ڈایازپیم گولیاں کانگو بھجوا رہا تھا۔

مسئلے کا حل

اب جبکہ دواؤں کی ترسیل پوری دنیا سے ہوتی ہے تو ایسے میں تمام ممالک کو دواؤں کی ترسیل کے سلسلے کی موثر نگرانی اور دواؤں کی تیاری و تقسیم کے سخت ضابطوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے بہترین آلات سے لیس لیبارٹریوں کی ضرورت ہے۔

دواؤں کے معیار اور خالص پن کے حوالے سے معیارات قائم کرنے والا ‘یو ایس فارماکوپیا کنونشن’ نامی ایک غیرمنفعتی ادارہ، چار براعظموں میں واقع قریباً تین درجن ممالک کو اپنی قومی لیبارٹریوں کی حالت بہتر بنانے میں مدد دے رہا ہے تاکہ ادویات کی ترسیل کے نظام کے تحفظ کو ممکن بنایا جا سکے۔ بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ، کنونشن کے “ادویات کے معیار کے فروغ” نامی عالمی پروگرام کی مالی مدد کرتا ہے۔

‘یوایس فارماکوپیا کنونشن’ کی جانب سے افریقہ کے لیے پروگرام کے نگران پیٹر لوکولے کہتے ہیں، “ہمارے زیادہ تر پروگراموں کا تعلق انسانی ترقی سے ہوتا ہے۔”

People dumping boxes of pills into pile (© Sia Kambou/AFP/Getty)
مارچ 2017 میں آئیوری کوسٹ کے شہر ابیدجاں میں، کارکنوں نے کئی ٹن جعلی ادویات کو جلا کر ضائع کیا۔ (© Sia Kambou/AFP/Getty)

یہ ادارہ مقامی سطح پر کام کرنے والے دوا سازوں کو دواؤں کی تیاری کے بہتر طریقے سکھانے کی تعلیم دینے کے علاوہ ادویات کے نمونوں کی جانچ پڑتال اور مہارت کے تبادلے کے لیے گھانا، برازیل، انڈیا اور چین میں اپنی جدید ترین لیبارٹریوں سے کام لیتا ہے۔ لوکولے بتاتے ہیں، “تین برس میں ہم نے افریقہ میں دنیا بھر سے 40 ممالک کے 250 نگرانوں کو تربیت دی ہے۔”

مستقبل کے مسائل کا کھوج

بعض دواؤں میں اس قدر چالاکی سے جعلسازی کی جاتی ہے کہ دوا سازی کے ماہرین بھی اس کا اندازہ نہیں کر پاتے مگر کیمیائی تجزیے کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ آج کل فیلڈ انسپکٹر ایسے آلات کی مدد سے جعلی دواؤں کا باآسانی سراغ لگا لیتے ہیں جو مہنگے بھی نہیں ہوتے اور انہیں سوٹ کیس میں رکھ کر لے جایا جا سکتا ہے۔

‘یو ایس فارماکوپیا کنونشن’ نے 1820ء میں دواؤں کی طاقت اور خالص پن کا معیار مقرر کرنا شروع کیا تھا۔ آج اس کے قائم کردہ معیارات پر دنیا کے 140 ممالک میں عمل کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ادویات کی شناخت، پیکنگ اور ان کو محفوظ طریقے سے رکھنے سے متعلق معاملات بھی دیکھتا ہے۔

کنونشن میں عالمی سطح پر نگرانی کے شعبے کی نائب صدر، کیٹ بانڈ کہتی ہیں، “امریکہ میں تو ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ دوائی کی بوتل میں وہی کچھ ہے جس کا اِس پر لیبل لگا ہوا ہے۔” کنونشن کے 1100 رکنی عملے کا قریباً 10 فیصد، “دواؤں کی ترسیل کے عالمی سلسلے کی نگرانی کے لیے بیرونی ممالک میں کام کرتا ہے۔” (عالمی ادارہ صحت اور متعدد ممالک و خِطوں نے اپنے فارماکوپیا قائم کر رکھے ہیں جو تمام معیارات میں ہم آہنگی کے لیے کام کرتے ہیں۔)

بورڈیلون ایسٹیو نے سویڈن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بتایا، “جعلی دواؤں کی انٹرنیٹ پر فروخت اور سرحدوں کے آر پار ترسیل میں اضافے کے نتیجے میں، ہر شخص اس مسئلے سے متاثر ہو رہا ہے۔ نہ صرف انتہائی مہنگی بلکہ انتہائی سستی دواؤں کی بھی جعلی نقلیں تیار کی جاتی ہیں۔”