وفاقی حکومت: وائٹ ہاؤس اور کانگریس سے بڑھکر ہے

مختلف عمارتوں کا ایک تصویری خاکہ جس میں عمارتوں پر لگے تیر کے نشان چھوٹی بڑی عمارتوں اور مختلف لوگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ (State Dept./Doug Thompson)
(State Dept./Doug Thompson)

یہ تحریر امریکہ میں وفاقیت کے طریق کار کے بارے میں مضامین کے تین حصوں پر مشتمل سلسلے کا حصہ ہے۔ دیگر حصوں میں مقامی حکومتوں اور ریاستی حکومتوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

امریکہ میں وفاقی قوانین کا اطلاق ملک کی ہر ریاست اور شہر میں ہوتا ہے۔ ان قوانین کی تیاری اور نفاذ میں کانگریس اور صدر کا اہم کردار ہے مگر یہ سب کچھ انہی تک ہی محدود نہیں۔

‘امریکن لجسلیٹو ایکسچینج کونسل’ میں عالمی تعلقات اور وفاقیت کے شعبے کی ڈائریکٹر، کارلا جونز کہتی ہیں، “ہمیں دفتر خارجہ کی ضرورت ہے، ہمیں محکمہ دفاع کی ضرورت ہے۔” یہ وفاقی ادارے ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔

“امریکہ ایک ایسے نظام پر انحصار کرتا ہے جسے ” وفاقیت” کہا جاتا ہے:جو اختیارت وفاقی حکومت کو نہیں دیئے گئے وہ ریاستی حکومت اور عوام کے لیے مختص ہیں۔” اس تصور کو سمجھنا اہم ہے کیونکہ شہریوں کو روزانہ مختلف انداز میں مختلف سطح کی حکومتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔

وفاقی حکومت کیا کرتی ہے؟

وفاقی حکومت ہی بین الریاستی اور غیرملکی تجارت کے ضوابط طے کر سکتی ہے، جنگ کا اعلان کرنے کی مجاز ہے، محصولات طے کر سکتی ہے اور اخراجات و دیگر قومی پالیسیاں ترتیب دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

اِن اقدامات کی ابتدا عموماً کانگریس کی جانب سے قانون سازی سے ہوتی ہے جو ایوان نمائندگان کے 435 اور سینیٹ کے 100 ارکان پر مشتمل ہے۔ آبادی سے قطع نظر ہر ریاست سے دو سینیٹر منتخب ہوتے ہیں جبکہ ہر ریاست سے ایوان نمائندگان کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی پر منحصر ہے۔ کانگریس کے منظور کردہ مسودہ ہائے قوانین صدر کے پاس جاتے ہیں جو انہیں منظور کر کے قانون کی شکل دے دیتا ہے یا ویٹو کے ذریعے مسترد کر سکتا ہے۔

حکومت کی انتظامی شاخ کانگریس کے بنائے قوانین کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔ انتظامیہ صدر اور ان کے مشیروں کے ساتھ ساتھ کئی ایک محکمہ جات [وزارتوں] اور اداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر محکمے کا سربراہ ایک وزیر ہوتا ہے جسے صدر سینیٹ کی رضامندی سے مقرر کرتا ہے۔ امریکہ میں ایک درجن سے زیادہ محکمے ہیں اور ہر محکمہ اپنے مخصوص فرائض انجام دیتا ہے۔ مثال کے طور پر محکمہ خزانہ کا کام کرنسی چھاپنا اور سرمائے کی گردش کے ضوابط طے کرنا ہے۔

صدر امریکی مسلح افواج کے کمانڈرانچیف کی ذمہ داری بھی نبھاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ہی ہدایات دیتا ہے کہ ہتھیار کیسے استعمال ہوں گے، فوجی دستوں کو کہاں تعینات کرنا ہے اور بحری جنگی جہاز کہاں بھیجنے ہیں۔ فوج کے جرنل اور ایڈمرل صدر سے ہدایات لیتے ہیں۔

ذیل کے گراف میں ہر حکومتی شعبے میں اداروں کی اقسام کا خلاصہ دیا گیا ہے:

مقامی، ریاستی، اور وفاقی سطحوں پر اختیارات کی تقسیم دکھانے والا چارٹ۔ (State Dept./J. Maruszewski)
(State Dept./J. Maruszewski)

سپریم کورٹ امریکہ کی سب سے بڑی وفاقی عدالت ہے اور قانون کے تحت یہ عدالت امریکی عوام کویکساں انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ جب کانگریس کی طرف کسی ایسے منظور شدہ قانون یا کسی اور مسئلے کی آئینی حیثیت یا تشریح  پر عدم اتفاق پیدا ہو جائے جسے وفاقی ادارے نافذ کرتے ہیں تو اس عدالت کا ایک چیف جسٹس اور آٹھ ساتھی جج شفاف اور غیرجانبدرانہ انداز میں اس قانون کی تشریح کرتے ہیں۔

آئین پوری قوم کے منتخب کردہ صدر کو ججوں کی نامزدگی کا اختیار دیتا ہے۔ حکومت کے شعبوں کے مابین توازن و نگرانی کو برقرار رکھنے کی خاطر، ججوں کی نامزدگی کی سینیٹ کی طرف سے توثیق کیا جانا لازمی ہے۔

صدر ٹرمپ نے 2017ء میں سپریم کورٹ میں اپنے نامزد کردہ جسٹس نیل گورسچ کی تقریب حلف برداری کے موقع پر کہا، “ملک کے بانیوں نے اختیارات کی تقسیم اس لیے کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے شہریوں کے تحفظ اور آئین کی حفاظت کا یہ بہترین طریقہ ہے۔”

سپریم کورٹ کے تاریخی  فیصلے امریکی زندگی کو متشکل کرتے ہیں اور ان کے نتائج آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ ان میں 1954 کا براؤن بنام  بورڈ آف ایجوکیشن نامی وہ مقدمہ بھی شامل ہے جس میں سرکاری سکولوں میں نسلی علیحدگی کو غیرقانونی قرار دیا گیا۔

جب صدر کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے سٹیٹ آف دی یونین خطاب کرتا ہے تو امریکی دارالحکومت میں وفاقی حکومت کی تینوں شاخیں ایک جگہ اکٹھی ہوتی ہیں۔ یہ تقریر صدر کی جانب سے آنے والے برسوں کے لیے ایجنڈا طے کرنے کا موقع ہوتی ہے۔ روایتی طور پر صدر کے ایسے خطابات جنوری یا فروری میں کانگریس کے نئے اجلاس کے بلائے جانے کے بعد ہوتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنا تیسرا سٹیٹ آف دی یونین خطاب 4 فروری کو کیا۔

یہ مضمون اس سے پہلے 26 دسمبر 2017 کو بھی شائع ہو چکا ہے۔