انسانی سمگلنگ جدید غلامی ہے اور اِس کا وجود محض تاریخ کی کتابوں میں ہی نہیں ملتا۔
انسانی سمگلنگ ایک بہت بڑا کاروبار بھی ہے۔ محنت کی عالمی تنظیم کے مطابق، جبری مشقت کی غیرقانونی سرگرمیوں سے 150 ارب ڈالر کا سالانہ منافع حاصل ہوتا ہے۔ یہ رقم سیلیکون ویلی کی چوٹی کی تین کمپنیوں کے مجموعی منافعوں سے کہیں زیادہ بڑھکر ہے۔ اگرچہ بالکل درست تعداد کا بتانا تو مشکل ہے مگر بین الاقوامی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں جبری مشقت کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ کے برابر ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروگرام کے ڈائریکٹر اور ‘سیکس ٹریڈنگ: اِن سائیڈ دا بزنس آف ماڈرن سلیوری’ [جنسی تجارت: جدید غلامی کی اندرونی کہانی] کے مصنف، سدہارتھ کارا نے اس موضوع پر 17 سال تحقیقی کام کیا ہے اور انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد سے متعلق ہزاروں کہانیوں کو دستاویزی شکل دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کیونکہ موجودہ زمانے میں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے، اس لیے کسی بھی دور کے مقابلے میں لوگوں کی خریدوفرخت، آج سب سے زیادہ منافع بخش شکل اختیار کر چکی ہے۔
کارا کہتے ہیں کہ گزری ہوئی صدیوں میں غلاموں کی بحری جہازوں کے ذریعے نقل و حمل میں کئی کئی مہینے لگ جایا کرتے تھے اور اس پر اُٹھنے والی لاگت کا اثر غلاموں کی قیمتوں پر پڑتا تھا۔
مگر آج کی جدید سفری آسانیوں اور رفتار کی بدولت انسانی سمگلنگ پر کی جانے والی سرمایہ کاری کا منافع بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔ مزدوروں کے ضمن میں یہ منافع 500 فیصد اور جنسی فعل کے لیے سمگل کیے گئے افراد کے ضمن میں اِس منافعے کی شرح 1,000 فیصد تک ہو سکتی ہے۔
کارا کہتے ہیں، “غلامی میں آنے والی یہ معاشی تبدیلی انتہائی اہم ہے … [اور] یہی وجہ ہے کہ یہ [انسانی سمگلنگ] عالمی معیشت میں سرایت کر گئی ہے اور جاری و ساری ہے حالانکہ یہ کرہ ارض کے چپے چپے پر غیرقانونی ہے۔”

انسانی سمگلنگ کی اصطلاح گمراہ کن بھی ہو سکتی ہے۔ اِس کا شکار ہونے والوں کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بین الاقوامی سرحدیں عبور کریں۔ اُنہیں اپنے ملک کے اندر بھی سمگل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اکثر اِس کا شکار ہونے والوں کو دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں لایا جاتا ہے۔
انسانی سمگلنگ کی پہچان کے لیے لوگوں کی تربیت
امریکہ بھر میں شہری اور ریاستی حکومتیں بعض مخصوص صنعتوں میں انسانی سمگلنگ کا پتہ چلانے اور اطلاع دینے کے لیے محنت کشوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ریاست اوہائیو میں ٹرک ڈرائیوروں کو انسانی سمگلنگ کی اُن پوشیدہ علامات کو پہچاننے کی تربیت دی جاتی ہے جن کا تعلق نوجوان عورتوں کا جسم فروشی کے لیے کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنا یا ٹرک سٹاپوں پر اُن کے بظاہر اپنی مرضی کے خلاف کسی کے کنٹرول میں ہونے سے ہوتا ہے۔
ریاست کنیٹی کٹ میں ریاستی حکام اور ہوٹل کی صنعت ایسے انسانی سمگلروں کو شناخت کرنے اور اطلاع دینے کی تربیت فراہم کرتے ہیں جو اپنے شکاروں کی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقلی کے دوران ہوٹلوں اور موٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔
ریاست ٹیکسس ایک ایسا تزویراتی منصوبہ نافذ کر رہی ہے جس کے بارے میں اُسے امید ہے کہ یہ امریکہ کے دوسرے شہروں اور بیرونی ممالک کے لیے ایک نمونے کا کام دے گا۔ منال پٹیل ڈیوس پہلی شخصیت ہیں جنہیں میئر کے دفتر میں انسانی سمگلنگ کے انسداد کے عہدے پر کُل وقتی بنیاد پر تعینات کیا گیا ہے۔ انسانی سمگلنگ کا پتہ چلانے کی خاطر اُن کی نظر صحت کے انسپکٹروں سے لے کر سرکاری خریداری کرنے والے اہلکاروں تک، شہری سہولیات کے حکام کے عوامی رابطوں سے فائدہ اٹھانے پر ہے کیونکہ اِن لوگوں کے کاروباروں اور کمیونٹیوں سے پہلے سے ہی تعلقات ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر محکمہ صحت کے انسپکٹر جب ریستورانوں کا معائنہ کرتے ہیں تو وہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کی شناخت کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں کیونکہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران وہ جبری مشقت کرنے والوں کو اکثر دیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح جہاں تعمیراتی کام ہو رہا ہو تو وہاں تعمیراتی انسپکٹر جبری مشقت کرنے والوں کو پہچان سکتے ہیں۔
ڈیوس کا دفتر انسانی سمگلنگ کے انسداد کے لیے کام کرنے والوں کے لیے معلومات کا مرکز ہے۔ ڈیوس کہتی ہیں، “ہم چاہتے ہیں کہ ہماری غیر منفعتی تنظیموں کے شراکت کار جو [انسانی سمگلنگ کی] ٹاسک فورس میں شامل ہیں، اپنے عوامی رابطوں کے اہداف میں بڑے واضح ہوں۔ غیرمنفعتی تنظیموں کے پاس تشہیر کے لیے پیسے نہیں ہوتے اور اُن کی اِس قسم کی معلومات تک رسائی بھی نہیں ہوتی۔”
ڈیوس اِس کی ایک مثال دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ہیوسٹن کا شہری منصوبہ بندی کا محکمہ مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کو کس طرح استعمال کر سکتا ہے۔ اِن اعداد و شمار کا تعلق انسانی سمگلنگ سے ہوتا ہے، ایسے مقامات سے ہوتا ہے جہاں پہلے انسانی سمگلنگ کے خلاف کاروائی کی جا چکی ہوتی ہے، اُن علاقوں سے ہوتا ہے جہاں جسم فروشی کی بنا پر گرفتاریاں کی گئی ہوتی ہیں، اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر بھاگ جانے والے اُن طالبعلموں کی اونچی شرحوں والے ثانوی سکولوں سے ہوتا ہے جنہیں انسانی سمگلنگ کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ عوامی رابطوں اور تربیتی کاوشوں میں، غیرمنفعتی تنظیموں کے شراکت کار اِن اعداد و شمار کو کامیابی سے اپنے اہداف پر مرکوز کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ڈیوس اِس بات پر زور دیتی ہیں کہ انسانی سمگلنگ حقوقِ انسانی کا مسئلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، “یہ صحتِ عامہ کا بھی ایک مسئلہ ہے۔ نفاذِ قانون کے علاوہ آپ کو اس طرح کے ردِعمل کی بھی ضرورت ہے۔”
27 جون کو محکمہِ خارجہ انسانی سمگلنگ کی 17ویں سالانہ رپورٹ شائع کرے گا۔ اِس رپورٹ میں امریکہ سمیت مختلف ممالک میں انسانی سمگلنگ کے انسداد کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔
انسانی سمگلنگ کی بڑی اقسام
جبری مشقت
جدید غلامی کا شکار ہونے والوں کی اکثریت کا استحصال مشقت کرانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔ ایسا خواہ اُنہیں (ڈرادھمکا کر یا دھوکہ دے کر اور پھر استحصال کی خاطر کسی دوسری جگہ لے جا کر) سمگل کرکے کیا گیا ہو یا اپنے خاندان یا کسی کمیونٹی کی طرف سے جبری مشقت پر مجبور کر کے کیا گیا ہو۔ زراعت اور ماہی گیری سمیت، جبری مشقت کا استعمال بہت سی صنعتوں میں کیا جاتا ہے۔
جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ
ایک تخمینے کے مطابق گو کہ جسم فروشی کے لیے سمگل کیے جانے والے افراد، مجموعی انسانی سمگلنگ کا 5 سے 10 فیصد تک ہوتے ہیں، مگر یہ مجموعی منافعے کا دو تہائی حصہ ہیں۔ کارا کا کہنا ہے، ” دنیا کی غلامی کی تاریخ میں، جسم فروشی کے لیے انسانی سمگلنگ، غلامی کی سب سے زیادہ منافع بخش شکل ہے۔”
قرض میں جکڑے ہوئے مزدور یا قرض کے بدلے غلامی
اس صورتِ حال میں قرض دینے والا، مقروض سے قرض کی وصولی کے عوض غلامانہ مشقت کرواتا ہے۔ ایسی صورت میں قرض کی ادائیگی کے لیے کی جانے والی مشقت کی مقدار، قرض کی رقم سے کہیں زیادہ بڑھکر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بروکر محنت کشوں کو کام دلاتا ہے اور اُن سے اتنی زیادہ فیس وصول کرتا ہے جو اُن کی قلیل تنخواہ سے ادا نہیں کی جا سکتی۔
گھریلو کام کی غلامی
ایسا اُس وقت ہوتا ہے جب گھریلو ملازموں کو اپنی ملازمت چھوڑنے کی آزادی نہیں ہوتی اور اُن کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ اُن کو اگر تنخواہ دی بھی جاتی ہے تو یہ بہت کم ہوتی ہے۔
بچوں سے جبری مشقت کروانا
اگرچہ بچے قانونی طور پر بعض کام کر سکتے ہیں، مگر بچوں کو بھی غلامی یا غلامی جیسی صورتِ حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بچوں کو بطور فوجی بھرتی کرنا
بچوں کو بطور فوجی استعمال کرنے کے لیے بھرتی کرنا یا مسلح افواج کی طرف سے اُنہیں بطور جنگجو یا دیگر اقسام کی مشقت کے لیے استعمال کرنا، غیر قانونی ہے۔ مسلح گروہ بعض فوجی بچوں کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں۔