جمہوریت میں شہریوں کو یہ جاننے کا حق ہونا چاہیے کہ حکومت ان کے نام پر کیا کر رہی ہے۔

50 برسوں سے آزادیِ معلومات کے امریکی قانون (ایف او آئی اے) کی بدولت امریکی شہری اور دوسرے لوگ وفاقی حکومت سے جب چاہیں ریکارڈ کے حصول کی درخواستیں دیتے چلے آ رہے ہیں۔ وفاقی ادارے مطلوبہ معلومات مہیا کرنے کے پابند ہیں۔

خواہ آپ صحافی ہیں، کارکن، محقق یا عام آدمی، اگر آپ حکومت یا اس کے اقدامات کے بارے میں مزید جاننے کے خواہش مند ہیں تو آپ ‘ایف او آئی اے’ کے تحت درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ یہ درخواست دینے کے لیے آپ  کا امریکی شہری ہونا بھی ضروری نہیں۔

امریکی حکومت کے ہر ادارے کا اپنا ‘ایف او آئی اے’ کا ایک علیحدہ دفتر ہوتا ہے۔ تاہم محکمہ انصاف کا ‘ دفتر برائے معلوماتی حکمت عملی’ تمام اداروں کے ‘ایف او آئی اے’ دفاتر کی نگرانی کرتا ہے اور پوری حکومت میں اہلکاروں کو اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ ‘ایف او آئی اے’ درخواستوں کا کیسے جواب دینا ہے۔ معلوماتی حکمت عملی کے دفتر کی منتظم، میلانی این پسٹے کہتی ہیں، “گزشتہ برس ہمیں وفاقی حکومت کے حوالے سے تقریباً 800,000 درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ قانون امریکہ میں بہت مقبول ہے۔”

صحافی اکثروبیشتر اپنی رپورٹنگ میں معلومات کی آزادی کے قانون کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ‘ایف او آئی اے’ کے تحت دی جانے والی درخواستوں میں صحافیوں کا حصہ صرف 7.5 فیصد ہے۔ بیشتر درخواستیں کاروباری شعبے، قانونی اداروں اور عام شہریوں کی جانب سے آتی ہیں۔

” کسی کو ایسے فیصلے اخفا میں رکھنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے جنہیں مفاد عام کو نقصان پہنچائے بغیر سامنے لایا جا سکتا ہو۔”  1966 میں صدر لنڈن جانسن کا معلومات کی آزادی کے قانون پر دستخط کرنے کے بعد بیان۔

کیا آپ ہر وہ حکومتی ریکارڈ حاصل کر سکتے ہیں جس کے لیے آپ درخواست دیتے ہیں؟ ہمیشہ ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ بعض معلومات ایسی ہیں جو ‘ایف او آئی اے’ کے تحت دستیاب نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے اجراء سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں یا شہریوں کے رازداری کے حقوق کی پامالی کا احتمال ہوتا ہے۔ تاہم ایسی معلومات نسبتاً کم ہوتی ہے اور امریکی عدالتیں بہت بڑے ریکارڈ تک عوام کی رسائی کے حق کی پرزور حمایت کرتی ہیں۔
بعض دستاویزات طویل عرصہ تک خفیہ رہتی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں سی آئی اے نے سیاہی غائب کرنے کے فارمولے’ سمیت جنگ عظیم اول سے متعلق اپنی آخری دستاویزات عام کی ہیں۔
‘اس ڈیجیٹل دور میں مواد کی بھرمار ایف او آئی اے’ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت کے وہ ریکارڈ جو پہلے فائلوں سے بھری الماریوں میں رکھے جاتے تھے اب وہ دنیا بھر میں پھیلے سرورز میں ای میلز، سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے مواد اور کلاؤڈ کی بنیاد پر کام کرنے والے مشترکہ آلات میں محفوظ ہیں۔
پسٹے کہتی ہیں، “اکیلی ای میل ریکارڈ میں اضافے کی بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔” ہم سب اپنے کاموں میں ای میل پر جس قدر انحصار کرتے ہیں اُس کی وجہ سے اس کے ریکارڈ میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو گیا ہے۔ چونکہ ای میلز بہت سے افراد کو بھیجی جاتی ہیں اور عموماً ان میں خط و کتابت کی طویل کڑیاں  شامل ہوتی ہیں اس لیے یہ کسی ایک موضوع پر مجموعی ریکارڈ کی تعداد اور طوالت میں تیزی سے اضافہ کرتی چلی جاتی ہیں۔
حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کی خاطر بہت سارا ریکارڈ عام کر دیا ہے خواہ اس کے لیے درخواست کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔ ہر ادارے کی اپنی ایف او آئی اے ویب سائٹ ہے جس پر ایسا ریکارڈ پوسٹ کر دیا جاتا ہے جس کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی کا امکان ہوتا ہے۔ پسٹے بتاتی ہیں کہ قانون کی رُو سے ادارے ہر ایسا ریکارڈ پوسٹ کرنے کے پابند ہیں جس کے لیے تین مرتبہ درخواست کی جا چکی ہو۔
پسٹے کہتی ہیں، “یہ حکومتی وسائل اور افرادی قوت کے حوالے سے بڑی لاگت والا کام ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ امریکہ نے ‘ایف او آئی اے’ کے ذریعے شفافیت کے اصولوں کی بابت اپنے مضبوط عزم کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

‘ایف او آئی اے’ کے  ریکارڈ کے نمونے جنہیں اب آپ پڑھ سکتے ہیں:

‘ایف او آئی اے’ کے تحت درخواست کیسے دی جائے: