عمر محمد علی کو 2015ء میں مصر میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنی منگیتر کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ اگرچہ عمر کے خلاف کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، تاہم انہیں دہشت گردی کی سرگرمیوں کا مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
عمر کی منگیتر کہتی ہیں، “عمرکو جاننے والے سب لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔” وہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے کو اپنی زندگی کا سب سے بھیانک وقت قراردیتی ہیں۔
شام کے ایک وکیل خلیل معتوک جو اپنے ملک میں شورش کے دوران سرگرم سیاسی کارکنوں کی عدالتوں میں نمائندگی کیا کرتے تھے، 2012ء میں کام پر جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئے اور اس وقت سے لے کر آج تک ان کے گھر والوں کو اُن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں، “وہ مجھے اپنی ذات پر ہمیشہ جو اعتماد دیا کرتے تھے، میں اس سے محروم ہوگئی ہوں۔”
علی اور معتوک دنیا بھر میں اُن ہزاروں افراد میں شامل ہیں جو یا تو لاپتہ ہیں یا پھر اُنہیں غیرمنصفانہ طور پر قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کے خاندان اور دوست ان کی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہیں اور ان کی رہائی کے لیے التجائیں کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے دن کے بعد سے، اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر سمینتھا پاور اور اقوام متحدہ میں امریکہ کا مشن، ہر روز سیاسی قیدیوں کے تعارفی خاکے شائع کررہا ہے اور ہیش ٹیگ #FreeToBeHome کو استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے دوسروں کو ان کے احوال سے آگاہ کر رہا ہے۔
پاور نے ایک نئی وڈیو میں کہا ہے، “لوگوں کے عقائد، سیاسی وابستگی یا تقریر کی بنیاد پر ان کی غیر منصفانہ قید کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ تمام سیای قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرنے میں ان کا ساتھ دیجیے۔