جمہوریہ کانگو کے ہسپتالوں سے نئی نئی مائیں بننے والی عورتوں کو اُس وقت تک نہیں جانے دیا گیا جب تک انہوں نے اپنے بل ادا نہیں کردیئے۔ بھارت میں جانوروں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں اور جانوروں کو روائتی کھیلوں میں استعمال کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ میڈیا کے مرکزی دھارے میں آپ کو اِن مسائل کے بارے میں کہانیاں پڑھنے کو نہ ملیں۔ حالانکہ یہ کہانیاں اُن کمیونٹیوں کے نزدیک اہم ہیں جن پر یہ اثر انداز ہوتی ہیں۔
غیرممالک میں بطور صحافی کام کرنے والی، کرِسٹی ہیگرینز کی جانب سے2006ء میں قائم کیا گیا، گلوبل پریس انسٹی ٹیوٹ اِس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی مقامی کمیونٹیوں کی بنیاد کے نیوز ماڈل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، اس انسٹی ٹیوٹ میں دنیا بھر سے عورتوں کو صحافیوں کے طور پر کام کرنے کی تربیت دے جاتی ہے۔

جب ہیگرینز 2000ء میں شروع ہونے والے عشرے میں نیپال میں ایک غیرملکی صحافتی نمائندہ تھیں تو انہوں نے عالمی پریس میں ترقی پذیر ممالک کے بارے میں خبروں میں دو رجحانات کا مشاہدہ کیا: مغربی ممالک کے صحافتی نمائندوں میں زیادہ تر مرد تھے اور جو خبریں وہ بھیجتے تھے وہ جنگ، غربت، تباہکاری اور بیماریوں پر مرکوز ہوتیں تھیں۔ ہیگرنز کہتی ہیں کہ یہ عناصر “یقینی طور پر اُن سب مقامات پر ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں جہاں ہم کام کرتے ہیں مگر یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔”
یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ کن امور پر اپنی توانائی صرف کی جائے، گلوبل پریس ایسی جگہوں کی تلاش میں رہتا ہے جہاں پر متحرک میڈیا کی کمی اور بقول ہیگرینز کے میڈیا “مختصر ترین خبر” دینے کا عادی ہو۔ گلوبل پریس اس پروگرام کے لیے امیدواروں کا انتخاب بڑی چھان پھٹک کے بعد کرتا ہے۔ ہیگرینز کا کہنا ہے کہ ہر کمیونٹی کے لیے چار سے دس آسامیاں ہوتی ہیں جن کے لیے گلوبل پریس کو سینکڑوں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ اس پروگرام کے لیے منتخب کی جانے والی خواتین میں سے صحافتی تجربہ رکھنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ تربیت کا عرصہ چھ ماہ پر محیط ہوتا ہے اور تربیت حاصل کرنے والوں کو مختلف زاویوں سے کہانی کی تیاری، انٹرویو کی تکنیکیں، تصویری صحافت اور لکھنے جیسے بنیادی صحافتی امور کی تربیت دی جاتی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ، تربیتی پروگرام مکمل کرنے والی ہر خاتوں کو ملازمت دیتا ہے۔ “وہ سب اچھے خاصے پیسے کما رہی ہیں اور وہ ہماری کل وقتی یا جز وقتی رپورٹر ہیں اور سب کو صحت کے بیمے جیسی سہولیات حاصل ہیں۔”
اس پروگرام کے تحت تربیت پانے والی رپورٹروں کے کام کو گلوبل پریس جرنل میں شائع کیا جاتا ہے۔ (سائیڈ بار دیکھیے)

اپنے ابتدائی دس برسوں میں گلوبل پریس کا انحصار انسانی فلاح کے تحت دی جانے والی امداد پر تھا۔ بنیادی طور پر یہ امداد 50 ممالک میں غیرمنفعت بخش تنظیموں کی مدد کرنے والی امریکی تنظیم، میکارتھر فاؤنڈیشن کے ذریعے دی جاتی تھی۔ مگر گلوبل پریس نیوز سروس کے 2015ء میں آغاز کے بعد، انسٹی ٹیوٹ کو انفرادی طور پر یا سبسکرپشن سروس کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے اپنے شراکت کار اخباروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے مالی آمدنی حاصل ہونا شروع ہو گئی ہے۔
ہیگرینز کا کہنا ہے، “مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو پیدائشی طور پر صحافی ہوتے ہیں۔ مگر اپنی صنف یا سماجی اور اقتصادی حالات کی وجہ سے اُنہیں مواقع نہیں ملتے۔ ہمارے اِس پروگرام کے تحت ایسی عورتوں کو تلاش کرنے اور اُنہیں وہ کچھ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو ہمیں امید ہے کہ اُن کے لیے زندگی کا ایک نایاب موقع ثابت ہوتا ہے۔”
گلوبل پریس رپورٹروں کی کہانیاں
- نائجیریا میں بیوگی کے مسائل: از ٹیمٹایو اولوفِنلوا۔
- میکسیکو میں مویشیوں کو خطرناک چمگادڑوں سے بچانا: از اڈریانا الکازار گونزالیز۔
- عوامی جمہوریہ کانگو کے اُس ہسپتال کے بارے میں مریم ابوبکر ایسپرانس کا مضمون جہاں نئی بننے والی اُن ماؤں کو روک لیا جاتا ہے جو بِل نہ ادا کر سکتی ہوں۔
- بھارت میں جانوروں کی مدد سے کھیلے جان والے کھیلوں کی مخالفت: از ساہانہ ڈیوڈ مینن۔