صدر ٹرمپ نے 28 فروری کو کانگریس کے ایک مشترکہ اجلاس سے امریکی کیپیٹل میں خطاب کیا۔ ذیل میں خارجہ پالیسی سے متعلقہ اقتسابات پیش کیے جا رہے ہیں

* * * *

آج ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ امریکی روح کی تجدید ہے۔

ہمارے اتحادیوں کو معلوم ہو جائے گا کہ امریکہ ایک بار پھر قیادت کے لیے تیار ہے۔

دنیا کی تمام اقوام – دوست یا دشمن – امریکہ کو مضبوط، امریکہ کو فخر مند، اور امریکہ کو آزاد پائیں گی۔

* * * *

ہم نے امریکہ کو روزگارکُش ‘ ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ ‘ سے علیحدہ کر لیا ہے۔

اور وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو کی مدد سے ہم نے کینیڈا میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ایک کونسل بنائی ہے جس کا مقصد خواتین کاروباری نظامت کاروں کے نیٹ ورکوں، منڈیوں اور اُس سرمائے تک رسائی کو یقینی بنانے میں مدد کرنا ہے جس کی اُنہیں کاروبار شروع کرنے اور اپنے مالیاتی خوابوں کی تعبیر پانے کی ضرورت ہے۔

اپنے ملک کے شہریوں کے تحفظ کی خاطر میں نے محکمہِ انصاف کو پُرتشدد جرائم کو کم کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔

مزید برآں میں نے ہوم لینڈ سکیورٹی اور انصاف کے محکموں کے ساتھ ساتھ محکمہِ خارجہ اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کو اُن تمام مجرمانہ مافیاؤں کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک جارحانہ حکمت عملی کو مربوط بنانے کی ہدایت کی ہے جو ہمارے ملک کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں۔

ہم اپنے ملک میں منشیات کی آمد اور اپنے نوجوانوں کی زہرپاشی کو روکیں گے – اور ہم اُن لوگوں کے علاج میں توسیع کریں گے جو منشیات کے بُری طرح عادی ہو چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ میری انتظامیہ نے امیگریشن کے قوانین کے نفاذ اور اور سرحدوں کے تحفظ کے بارے میں امریکی عوام کی باتیں سُن لی ہیں۔ بالآخر اپنے امیگریشن کے قوانین کے نفاذ سے، ہم اجرتیں بڑھائیں گے، بےروزگاروں کی مدد کریں گے، اربوں ڈالر کی بچت کریں گے اور سب کے لیے اپنی بستیوں کو محفوظ بنائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام امریکی کامیاب ہوں – مگر یہ کام لاقانونیت والے افراتفری کے ماحول میں نہیں ہو سکتا۔ ہم کو ہرگز اپنی سرحدوں پر سالمیت اور قانون کی حکمرانی کو بحال کرنا چاہیے۔

اسی وجہ سے ہم اپنی جنوبی سرحد پر ایک بہت ہی عظیم دیوار کی تعمیر جلد ہی شروع کریں گے۔ اسے وقت سے پہلے شروع کیا جائے گا اور جب یہ مکمل ہو جائے گی تو یہ منشیات اور جرائم کے خلاف ایک بہت ہی موثر ہتھیار ہوگی۔

* * * *

امریکہ کے شہریوں کی خدمت کرنا، حفاظت کرنا اور دفاع کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم اپنی قوم کو بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی مضبوط اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

محکمہِ انصاف کے مہیا کردہ ڈیٹا کے مطابق 11 ستمبر کے بعد سے یہاں ہمارے ملک میں، دہشت گردی اور دہشت گردی سے متعلقہ جرائم میں سزایافتہ افراد کی ایک بہت بڑی اکثریت، باہر سے آئی ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں حملے دیکھے ہیں – یہ حملے بوسٹن سے لے کر سین برناڈینو تا پینٹاگون اور ہاں، حتٰی کہ  ورلڈٹریڈ سنٹر پر کیے گئے۔

ہم نے فرانس، بلجیم، جرمنی اور دنیا بھر میں حملے ہوتے دیکھے ہیں۔

ایسے مقامات سے بےلگام داخلے کی اجازت دینا جہاں مناسب جانچ پڑتال نہیں ہوسکتی، رحمدلی نہیں بلکہ لاپرواہی ہے۔ اُن لوگوں کو جنہیں امریکہ میں داخلے کا اعلٰی اعزاز بخشا جاتا ہے، اس ملک کی حمایت کرنا چاہیے اور اس کے عوام اور اس کی اقدار سے محبت کرنا چاہیے۔

ہم امریکہ کے اندر دہشت گردی کے کسی ٹھکانے کے قیام کی اجازت نہیں دے سکتے – ہم اپنے ملک کو انتہاپسندوں کی ایک محفوظ پناہ گاہ بننے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ میری انتظامیہ جانچ پڑتال کے بہتر طریقوں پر کام کر رہی ہے  اور ہم عنقریب اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے نئے اقدامات اٹھائیں گے — اور اُن لوگوں کو بھی ملک سے باہر رکھنے کے لیے جو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔

جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا، میں نے محکمہِ دفاع کو داعش کو تباہ و برباد کرنے کا منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔   داعش لاقانون وحشیوں کا ایک ایسا نیٹ ورک ہے جس نے مسلمانوں اور عیسائیوں، اور تمام مذاہب اور عقائد کے ماننے والے مردوں، اور عورتوں، اور بچوں کو ذبح کیا ہے۔ مسلم دنیا کے اپنے دوستوں اور اتحادیوں سمیت، ہم اپنے کرہ ارض سے اس گھٹیا دشمن کا نام و نشان مٹانے کی خاطر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

میں نے ایسے اداروں اور افراد پر نئی پابندیاں لگائی ہیں جو ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی مدد کرتے ہیں اور اسرائیل کی ریاست کے ساتھ  اپنے نہ ٹوٹنے والے اتحاد کا اعادہ کیا ہے۔

* * * *

ہم نے نیفٹا کی منظوری کے بعد سے مصنوعات سازی کے شعبے میں ایک چوتھائی ملازمتیں کھو دی ہیں اور ہم چین کی  2001ء میں تجارت کی عالمی تنظیم میں شمولیت کے بعد 60,000  فیکٹریاں گنوا بیٹھے ہیں۔

گزشتہ سال دنیا کے ساتھ سامان کی شکل میں ہمارے تجارتی خسارے کی مالیت تقریباً 800 ارب ڈالر تھی۔

اور بیرونی ممالک میں، ہمیں خارجہ پالیسی کی المناک تباہیوں کا ایک سلسلہ وراثت میں ملا ہے۔

ان جیسے اور بہت سارے دیگر فوری مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں پارٹی اختلافات سے بالاتر ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں امریکی روح سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت پڑے گی یعنی وہ روح جو طویل اور داستانوں سے بھری ہماری تاریخ کے دوران پیش آنے والے ہر ایک چیلنچ پر قابو پا چکی ہے۔

لیکن ملک میں اور بیرونِ ملک اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ہمارے لیے امریکی معیشت کے انجن کو دوبارہ چالو کرنا لازمی ہے تا کہ کمپنیوں کے لیے امریکہ میں کاروبار کرنا آسان تر ہو جائے جبکہ اُن کے لیے ملک چھوڑنا بہت زیادہ دشوار ہوجائے۔

اس وقت دنیا میں کسی بھی جگہ کے مقابلے میں، امریکی کمپنیوں پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں کی شرحیں بلند ترین ہیں۔

* * * *

آج  جب ہم امریکہ سے باہر اپنی مصنوعات بھجواتے ہیں تو بہت سے دوسرے ممالک ہم سے بہت زیادہ محصولات اور ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ مگر جب غیر ملکی کمپنیاں اپنی مصنوعات امریکہ بھیجتی ہیں تو ہم اُن سے کچھ بھی نہیں یا تقریباً نہ ہونے کے برابر ٹیکس وصول کرتے ہیں۔

* * * *

میں آزاد تجارت پر پختہ یقین رکھتا ہوں مگر اس تجارت کو منصفانہ بھی ہونا چاہیے۔

* * * *

کینیڈا، آسٹریلیا اور بہت سے دیگر ممالک کی طرح، ملکوں کے امیگریشن کے نظام کی بنیاد میرٹ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ کسی ملک میں داخل ہونے کے خواہاں لوگوں کو مالی لحاظ سے اپنی مدد آپ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود امریکہ میں ہم اس قانون کو نافذ نہیں کرتے جس سے اُن سرکاری وسائل پر دباؤ پڑتا ہے جن پر ہمارے غریب ترین شہری انحصار کرتے ہیں۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے مطابق امیگریشن کے ہمارے موجودہ نظام پر ہر سال امریکہ کے ٹیکس دہندگان کے  اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

کم ہنرمند امیگریشن کے موجودہ نظام کو تبدیل کرنے اور اس کی جگہ میرٹ کی بنیاد پر مبنی نظام اختیار کرنے سے ہمیں بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ اس سے بےشمار ڈالروں کی بچت ہوگی، کارکنوں کی اجرتیں بڑھیں گی اور تارکین وطن کے خاندانوں سمیت کم آمدنی والے خاندانوں کو درمیانے طبقے میں شامل ہونے میں مدد ملےگی۔ اور وہ ایسا تیزی سے کریں گے۔ اور یقیناً وہ بہت زیادہ خوش ہوں گے۔

جب تک ہماری توجہ مندرجہ ذیل مقاصد پر مرکوز رہے گی تو مجھے یقین ہے کہ اس وقت تک امیگریشن کی حقیقی اور مثبت  اصلاح ممکن ہو گی: امریکیوں کے لیے روزگار اور اجرتوں کو بہتر بنایا جائے، ہماری قوم کی سلامتی کو مضبوط کیا جائے اور قوانین کے احترام کو بحال کیا جائے۔

* * * *

ہماری خارجہ پالیسی دنیا کے ساتھ ایک براہ راست، ٹھوس اور بامعنی شراکت کا تقاضہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی امریکی قیادت ہے جس کی بنیاد ہمارے اور ہمارے اتحادیوں کے درمیان انتہائی اہم سلامتی کے مشترکہ مفادات ہیں۔

ہم نیٹو کی پُرزور حمایت کرتے ہیں۔ دو عظیم جنگوں کے دوران بننے والے بندھنوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والے اس اتحاد نے، فاشزم اور کمیونزم کو شکست دینے والی سرد جنگ کو دیس نکالا دیا۔

تاہم ہمارے شراکت داروں پر اپنی مالی ذمہ داریاں نبھانا لازم ہے۔

اور اب، ہماری زبردست اور بے تکلف بحثوں کی بنیاد پر وہ بالکل ایسا ہی کرنا شروع کر رہے ہیں۔ درحقیقت، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ پیسہ آرہا ہے۔

خواہ نیٹو میں ہوں، مشرقِ وسطٰی میں ہوں یا بحرالکاہل کے اردگرد، ہم اپنے شراکت داروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ تزویراتی اور فوجی کاروائیوں، دونوں میں براہ راست اور معنی خیز کردار ادا کریں اور اخراجات کا اپنا منصفانہ حصہ ادا کریں۔ اُنہیں یہ کرنا ہوگا۔

ہم تاریخی اداروں کا احترام کریں گے، مگر ہم قوموں کے خودمختاری کے حقوق کا بھی احترام کریں گے اور اُنہیں ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے حقوق کا بھی احترام کرنا ہوگا۔

آزاد قومیں لوگوں کی مرضی کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں اور امریکہ تمام اقوام کے اپنے اپنے راستوں کے انتخاب کے حق کا احترام کرتا ہے۔ میرا کام دنیا کی نمائندگی کرنا نہیں ہے۔ میرا کام ریاستہائے متحدہ امریکہ کی نمائندگی کرنا ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ جب کم تنازعات ہوں تو امریکہ  زیادہ خوشحال ہوتا ہے – اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

ہمیں ماضی کی غلطیوں سے ضرور سیکھنا چاہیے۔ ہم نے وہ جنگ اور تباہی دیکھی ہے جو ہماری ساری دنیا میں پھیلی اور اسے پامال کرکے رکھ دیا۔ جی ہاں ساری دنیا میں۔

اِن انسانی بربادیوں کا واحد طویل مدتی حل ایسے حالات پیدا کرنا ہے جن میں بے گھر لوگ سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں اور تعمیرِنو کا طویل عمل شروع کر سکیں۔

امریکہ ایسے حالات میں نئے دوست تلاش کرنے اور نئی شراکت داریاں قائم کرنے کے لیے تیار ہے جن میں مشترکہ مفادات مطابقت رکھتے ہوں۔ ہم  ہم آہنگی اور استحکام چاہتے ہیں نہ کہ جنگ اور تصادم۔

جہاں کہیں بھی مل سکے وہاں ہم امن چاہتے ہیں۔ امریکہ آج سابقہ دشمنوں کا دوست ہے۔ ہمارے بعض قریب ترین اتحادی، کئی عشرے پہلے اِن بہت ہی خوفناک جنگوں میں مخالف فریق کے ساتھ تھے۔ اس تاریخ کو ہمیں بہتر دنیا کے امکانات پر مکمل بھروسہ دینا چاہیے۔