ہو سکتا ہے کہ آپ کو جِم کرو کے نسل پرستانہ دور میں ریاست ورجینیا کے علاقے آرلنگٹن کے ایک قدامت پسند گھرانے میں پلنے بڑھنے  والی ایک سفید فام لڑکی، جون ٹرمپاورمُلہولینڈ شہری حقوق کی ایک غیر روائتی ہیرو لگتی ہوں۔

مگر اپنی عمر کے 19ویں سال میں پہنچنے تک وہ، جنوب میں سیاہ فام امریکیوں کے ساتھ  روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف تین درجن سے زیادہ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے چکی تھیں اور اس کے باعث وہ ‘کُو کلکس کلین’ کی مطلوبہ ترین افراد کی فہرست میں مقام پا چکی تھیں۔

آجکل 75 سالہ مُلہولینڈ سکولوں اور کمیونٹی گروپوں میں اپنے اُن تجربات کے حوالے سے خطاب کرتی ہیں جن میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ہمراہ کام کرنے کے علاوہ مسس سپی کی جیل میں کاٹی گئی  دوماہ کی قید کا تذکرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو یہ سزا امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کرنے پر دی گئی تھی۔ انہوں نے1961ء میں جنوبی ریاستوں کا سفر ایک بس میں کیا اور اسی نسبت سے یہ لوگ “آزادی کے سوار” کہلائے۔

مُلہولینڈ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، “باہر نکلیے اور عملی قدم اٹھانے کے لیے کچھ کیجیے۔ ہر اس فرد کا ساتھ دیجیے جسے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔”

کم عمری سے جذبۂ سرگرمی

Black and white people in a drugstore (© AP Images)
مُلہولینڈ (بائیں جانب) ورجینیا میں دوائیوں کی ایک دکان کے سامنے 1960ء میں دیے جانے والے ایک احتجاجی دھرنے کے دوران۔ (© AP Images)

سماجی انصاف کے ساتھ ان کے تعلق کا آغاز گرجا گھر سے ہوا اور سیکنڈری سکول میں بھی جاری رہا۔ ان کا  گرجاگھر کا نوجوانوں کا گروپ خفیہ طور پر سیاہ فام طلباء کو اتوار کے دن ‘سپیگیٹی ڈنر’ پر مدعو کیا کرتا تھا۔ مُلہولینڈ بتاتی ہیں، “یہ 1957ء کے اواخر کے دن تھے۔ ہم ایسا چُپکے سے کیا کرتے تھے کیونکہ پولیس ہمیں غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کے الزام میں گرفتار کر سکتی تھی۔ امریکی نازی پارٹی کا دفتر بھی قریب ہی واقع تھا اور ان کے کسی بھی وقت آ دھمکنے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔ اس سب کچھ کے باوجود ہم وہاں ملتے رہے اور اکٹھے کھانا کھاتے رہے۔”

اپنے والدین کے اصرار پر انہوں نے شمالی کیرولائنا کی ڈیوک یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں پر انہوں ایسے ریستورانوں اور سٹوروں میں دوپہر کے کھانے کے وقت دیے جانے والے پُرامن دھرنوں میں شرکت کی جن کا مقصد اِن سٹوروں کی سفید فام اور سیاہ فام افراد کو ایک جگہ بیٹھنے کی پابندی کی پالیسیوں کی مخالفت کرنا تھا۔ انہوں نے مسس سپی کے ٹوگالو کالج میں داخلے کی خاطر ڈیوک یونیورسٹی کو چھوڑا اور سیاہ فام طلباء کے اس تاریخی ادارے کی پہلی سفید فام طالبہ بنیں۔ ٹوگالو میں ان کی ملاقات سماجی حقوق کی تحریک کے رہنماؤں سے ہوئی جن کے ساتھ مل کر انہوں نے آئندہ آنے والے برسوں میں کام کیا۔ ان رہنماؤں میں کنگ، این موڈی اور ایک نسل پرست کے ہاتھوں 1963ء میں ہلاک ہونے والے میڈگر ایورز جیسے افراد شامل تھے۔

انہوں نے 1963ء کا موسمِ گرما  واشنگٹن کی جانب مارچ کی منصوبہ بندی میں ہاتھ بٹانے میں گزارا۔ بعد میں یہ سیاسی ریلی امریکہ کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی ثابت ہوئی اور اسی کے دوران  مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی شہرۂ آفاق “میرا ایک خواب ہے” نامی تقریر کی۔

مسس سپی سے واشنگٹن تک

Joan Mulholland and Martin Luther King Jr. at Tougaloo College in 1962 (Joan Trumpauer Mulholland Foundation)
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر (دائیں جانب) 1962ء میں، مُلہولینڈ (درمیان میں) کے ساتھ ٹوگالو کالج میں۔ (Joan Trumpauer Mulholland Foundation)

اس کے بعد آنے والے موسمِ بہار تک مُلہولینڈ کو یقین ہو چلا تھا کہ انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ ‘کُوکلکس کلین’ نے مُلہولینڈ اور ان کے ساتھی کارکنوں کو ریاست مسس سپی کے شہر کینٹن سے باہر نکلتے ہوئے روک لیا۔ انہوں نے گاڑی کو گھیرے میں لے لیا اور ڈرائیور کو مارا پیٹا۔ وہ کہتی ہیں، “اس رات، کینٹن سے باہر سڑک پر سفر کرتے ہوئے ہم سب کو یقین ہو گیا تھا کہ اب ہمارا آخری وقت آن پہنچا ہے۔” مُلہولینڈ اور ان کے ساتھیوں کی ہوشیاری اور حاضر دماغی نے اس دن انہیں جان بچا کر نکلنے میں مدد دی۔  بعد میں ‘کلین’ کے ایک مخبر نے تصدیق کی کہ اُس دن اُن کے حملہ آوروں کو انہیں قتل کرنے کے احکامات دیے جا چکے تھے۔ کیونکہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو  ‘کلین’ نے سماجی حقوق کے تین دیگر کارکنوں؛ مائیکل شوئیرنر، جیمزچینی اور اینڈریو گڈمین کو ہلاک کر دیا۔

جب مُلہولینڈ نے ٹوگالو کالج سے اپنی تعلیم مکمل کرلی تو وہ آرلنگٹن، ورجینیا واپس آگئیں۔ انہوں نے اپنے پانچ بیٹوں کی پرورش کی اور ایک نائب ٹیچر کی حیثیت سے کام کیا۔ حالیہ برسوں میں ان کے بیٹے لوکی نے جون ٹرمپاورمُلہولینڈ فاؤنڈیشن قائم کی جس کا مقصد بچوں کو بنیادی شہری حقوق کے دور سے آگاہ کرنا ہے۔

ان کی زندگی کی کہانی ‘این آرڈینیری ہیرو’  [ایک عام ہیرو] نامی فلم میں بیان کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے، “اشتہار لگانا اور مارچ کرنا اب بھی اچھا ہے۔ مگر اپنے مظاہرے کے بارے میں اختراعی سوچ پر غور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ یقینی بنائیں کہ آپ کے ساتھ اور لوگ بھی شامل ہوں اور تشہیر کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔”

Woman standing in jail cell (Joan Trumpauer Mulholland Foundation)
مُلہولینڈ مسس سپی جیل کی اُس کوٹھڑی کو دیکھنے دوبارہ گئیں جہاں 1961ء میں انہیں قید میں رکھا گیا تھا۔ (Joan Trumpauer Mulholland Foundation)

جِم کرو کے نسل پرستی کے ریاستی اور مقامی قوانین کے مطابق:

– کاروباری اداروں کو اپنے سیاہ فام اور سفید فام گاہکوں کو علیحدہ رکھنے کا حکم تھا۔

– مختلف نسلوں کے افراد کو آپس میں شادی کرنے کی ممانعت تھی۔

– سیاہ فام امریکی افراد کے ووٹ دینے کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔

Water fountains labeled "Colored" and "White" (Shutterstock)
(Shutterstock)