امریکہ، روس اور جاپان کے تین خلا باز 17 دسمبر کو قازقستان سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے روانہ ہوئے جو زمین سے 400 کلومیٹر کی بلندی پر گردش کر رہا ہے۔ اس سٹیشن پر خلابازوں کے تجربات سے انسانوں کو مریخ پر اور اس سے آگے رسائی میں مدد مل سکتی ہے۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والے خلا باز سکاٹ ٹنگل، روس کے انتون شکیپلیروف اور جاپان کے نوریشیگے کینائی آئندہ پانچ ماہ تک خلائی سٹیشن پر رہیں گے۔
یہ خلائی سٹیشن امریکہ، روس، جاپان، کینیڈا اور یورپ کے بین الاقوامی شراکتداروں نے تعمیر کیا تھا جو 17 سال سے مسلسل کام کر رہا ہے۔ ان ممالک کے خلائی اداروں سے تعلق رکھنے والے خلاباز سٹیشن کو چلاتے ہیں اور یہاں پر 100 سے زیادہ ممالک سائنس اور تعلیم کے منصوبوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے لیے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر سائنسی امور کی نگران، جولی رابنسن کہتی ہیں، “ناسا کسی صورت میں یہ کام اکیلے نہیں کر سکتا۔”
حالیہ برسوں میں عملے کے پہلے ارکان کی طرح، تینوں خلا باز روسی سویوز راکٹ کے ذریعے خلا میں گئے۔ اسی جزوی وجہ سے ناسا کے خلا باز روسی زبان سیکھتے ہیں تاکہ اپنے ساتھی خلانوردوں کے ساتھ کام کر سکیں۔ اگرچہ خلائی سٹیشن کی سرکاری زبان انگریزی ہے تاہم مختلف نشانات اور طریقہ ہائے کار دونوں زبانوں میں آویزاں کیے جاتے ہیں۔
رابنسن کا کہنا ہے کہ امریکہ اور روس خلائی میدان میں اکیلے کام کرنے کی نسبت باہم مل کر زیادہ کامیاب رہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہم خلائی سٹیشن پر اپنے مشترکہ تجربے کی بدولت مستقبل میں مریخ مشن پر مختلف انداز میں کام کریں گے۔”
بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر کی جانے والی تحقیق کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر مارچ 2015 میں ناسا کے خلاباز سکاٹ کیلی اور روسی خلانورد میخائل کورنینکوف نے انسانی صحت پر طویل دورانیے کے خلائی سفر کے اثرات‘ جانچنے کے لیے ایک مشن شروع کیا جس کا مقصد انسانوں کو مریخ پر لے جانے کے طویل مشنوں کی تیاری تھا۔

خلائی سٹیشن کے موجودہ عملے کے ایک تجربے سے خلا میں اور زمین پر استعمال کے لیے اعلیٰ معیار کی فائبر آپٹک کی تیاری میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ عملہ خلائی سٹیشن پر گھریلو اشیا لے جا سکتا ہے۔ روسی خلانورد شکیپلیروف خلائی جہاز میں کشش ثقل نہ ہونے کے مظہر کے طور پر اپنی بیٹی کا کتے کی شکل کا کھلونا ساتھ لائے۔
عملے کی جانب سے خلائی سٹیشن پر کی گئی تحقیق کے نتائج کا تبادلہ کیا جائے گا۔ رابنسن کہتی ہیں، “ان فوائد سے خلائی سٹیشن کی تعمیر میں حصہ لینے والے ممالک ہی مستفید نہیں ہوں گے بلکہ ان سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔ یہ انسانیت کے لیے حیرت انگیز طویل مدتی فائدہ ہے۔”
