81 سال کی عمر میں نئی دنیا کی تلاش میں مصروف، ناسا کی سوسن فنلے سے ملیے

پیساڈینا، کیلیفورنیا میں واقع ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں کام کرنے والی سوسن فنلے حدود و قیود کو آگے دھکیلنے اور نئی جہتوں کو چھونے کی عادی ہو چکی ہیں۔ سٹار ٹریک ٹی وی شو میں یہ بات شاید یوں کہی جائے، ” وہ دلیرانہ انداز میں وہاں جاتی ہیں جہاں پہلے کوئی نہیں گیا۔”

Photo of a young Susan G. Finley (NASA)
ناسا نے 1958 میں فنلے کو اُس کی ریاضی کی مہارتوں کے وجہ سے اپنے ہاں ملازم رکھا۔ (NASA)

81 سالہ فنلے کا شمار ناسا میں طویل ترین عرصے سے کام کرنے والی خواتین میں ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے برسوں میں وہ چاند، سورج، تمام سیاروں اور نظام شمسی میں واقع دیگر چیزوں کا کھوج لگانے کے مشنوں میں حصہ لے چکی ہیں۔

انہوں نے بہت سی تبدیلیاں بھی دیکھیں جن میں بیشتر کا محرک ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفتیں ہیں۔

1958 میں جب فنلے نے امریکی خلائی پروگرام میں شمولیت اختیار کی تو ان کا پہلا کام “انسانی کمپیوٹر” کے طور پر ریاضی کی پیچیدہ  مساواتیں حل کرنا اور ہاتھ سے راکٹ کے  پرواز کے راستے پر نظر رکھنا تھا۔ جب یہ کام الیکٹرانک کمپیوٹروں سے لیا جانے لگا تو فنلے نے کمپیوٹر پروگرامنگ کا شعبہ اپنا لیا۔

پھر وہ سب سسٹم انجینئر بن گئیں اور ناسا کے “ڈیپ سپیس نیٹ ورک” کے لیے سافٹ ویئرز کی تیاری اور آزمائش کا کام کرنے لگیں۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے  ایک حصے کے طور پر یہ نیٹ ورک ناسا کے بین السیاراتی خلائی جہازوں اور زمینی مدار میں گردش کرنے سے متعلق مخصوص مشنوں میں معاونت مہیا کرتا ہے۔

Ca. 1960 photo of a woman writing on a white board and a man sitting at a desk in an office (NASA/JPL-Caltech)
ناسا میں ایک انسانی “کمپیوٹر” میرینر ٹو کی پوزیشن کا تعین کر رہا ہے۔ 1962 میں سیارے زہرہ پر پہنچنے والا یہ خلائی جہاز، کسی سیارے سے گزر کر دوسرے سیارے تک پہنچنے والا اولین خلائی جہاز تھا۔ (NASA/JPL-Caltech)

خلائی تحقیق پر اثرات

فنلے کے کام کی بدولت خلائی تحقیق پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خلائی جہاز کو راستہ دکھانے کے لیے ناسا میں ان کا لکھا ابتدائی کمپیوٹر پروگرام چند تبدیلیوں کے ساتھ اب بھی زیرِ استعمال ہے۔

جب ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی نمایاں جھلکیوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو اِن میں دو واقعات سرفہرست دکھائی دیتے ہیں۔

1985 میں انہوں نے سہ ملکی منصوبے میں اُس وقت حصہ لیا جب ناسا نے سیارہ زہرہ پر تحقیق کے لیے روسی اور فرانسیسی خلائی اداروں سے شراکت کی۔

زہرہ کی جانب پرواز کے بعد خلائی جہاز نے ہیلے کے دم دار ستارے کے پاس پہنچنا تھا۔ جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں ہیلے کی ٹیم نے جہاز کو راستہ دکھایا اور ناسا کے لیے معلومات اکٹھی کیں۔

نوٹَ: وڈیو انگریزی میں ہے۔

فنلے کہتی ہیں، “تمام خبررسانی فرانسیسیوں کے ذریعے ہونا تھی مگر ہماری ٹریکنگ اس قدر کامیاب تھی کہ روسیوں نے بعد میں دم دار تارے کی جانب پرواز کے لیے ہماری خدمات حاصل کیں۔ مجھے عالمی منصوبے کا حصہ بن کر واقعتاً بے حد خوشی ہوئی۔”

مریخ کے بارے میں معلومات کا کھوج لگانے کے لیے بھیجے جانے والے “رو ور مشن” پر کام کرنا ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ایک اور نمایاں واقعہ ہے۔

جنوری 2004 میں جب شروع کے دو میں سے پہلا رو ور مریخ  پر اترا تو وہ سیارے کی سطح پر کئی مرتبہ بری طرح اچھلا۔ اس موقع پر ناسا کے انجینئر بے چینی سے اس رو ورکا انجام جاننے کے منتظر تھے۔

فنلے بتاتی ہیں، “میرے لیے خوشی کا سب سے بڑا لمحہ وہ تھا جب میں نے مشن کے مینیجر  …  کو بتایا کہ رو ور رک چکا ہے اور 15 منٹ مریخ کی سطح پر اچھلنے کے باوجود “صحیح سلامت” حالت میں ہے۔ دنیا میں واحد ایک ایسا فرد ہونا جس کے پاس اس طرح کی ایک خبر ہو، ایک زبردست تجربہ تھا۔”

ناسا میں طویل تجربے کے باعث اکثروبیشتر اُن کے نوجوان رفقائے کار اُن سے رہنمائی لینے آتے ہیں۔ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہونے والے سائنسی پروگراموں میں شرکت کرنے والے بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہیں اور انہیں کہتی ہیں “سوالات پوچھنے سے مت گھبرائیں۔”

فنلے کا ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھ رہی ہوتی ہوں اور ہو سکتا ہےکسی دن  میرے پاس پیانو سیکھنے کا وقت نکل آئے۔”