سیل خان میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے تربیت یافتہ انجنیئر ہیں اور انہیں ریاضی اور سائنس کے شعبوں میں ملکہ حاصل ہے۔ کوئی بارہ سال قبل انہوں نے نصف برِ اعظم کی  دوری پر رہنے والی اپنی ایک 12 سالہ کزن کو الجبرا پڑھانے کے لیے انٹرنیٹ کے ایک ڈرائنگ کے ٹول کا استعمال کیا۔

ان کی دوستانہ آواز اور رنگ برنگی متحرک تصویریں اُن کی کزن کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں۔ جب انھوں نے یوٹیوب پر اس کی وڈیو پوسٹ کیں تو دنیا بھر میں کروڑوں ناظرین نے انہیں پسند کیا۔

Teacher watching over students surrounding a table (Courtesy of Khan Academy)
اپنی ٹیچر کی موجودگی میں، طالب علم اولمپک کھیلوں کی میزبانی کے امیدوار ملکوں کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ (Courtesy photo)

اب سیل خان اس سے ایک زیادہ مشکل معاملے کو سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی بچوں کو اینٹوں اور گارے سے بنے ہوئے روایتی سکولوں میں جس طرح تعلیم دی جاتی ہے اسے ایک نیا روپ دیا جائے۔

خان اکیڈمی کے اس غیر روایتی طریقے کی آزمائش ماؤنٹین ویو، کیلی فورنیا میں پرائیویٹ خان لیب سکول میں کی جا رہی ہے۔ 5 سے 14 برس کی عمر کے پچانوے بچے، اس سکول میں عام سکولوں کی نسبت زیادہ لمبے تعلیمی سال کے دوران روزانہ ساڑھے نو گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ وہ خود اپنے اہداف کا تعین کرتے ہیں اور اپنی رفتار سے پڑھتے ہیں۔ یہاں نمبر یا گریڈ نہیں دیے جاتے اور نہ ہی ہوم ورک دیا جاتا ہے۔ مگر بہت سے پراجیکٹ دیے جاتے ہیں۔ کافی سارا وقت لیپ ٹاپس پر اور چھوٹے گروپوں کی شکل میں اور ٹیچروں کے طالب علموں کو فرداًفرداً پڑھانے میں صرف کیا جاتا ہے۔

Two students turning a crank on a jar (Courtesy of Khan Academy)
دو کمسن بچے اس ڈبل روٹی کے لیے جو انہوں نے خود تیار کی ہے، مکھن بنانے کے لیے دودھ بلو رہے ہیں۔ (Courtesy photo)

بعض لوگوں نے اسے ایک کمرے پر مشتمل سکول کا نام دیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کم عمر والے اور نسبتاً بڑی عمر کے طالب علموں کو دو بڑے کمروں میں علیحدہ علیحدہ بٹھایا جاتا ہے جہاں الگ الگ جگہیں بنی ہوتی ہیں جن میں طالب علم  بیٹھ کر پراجیکٹوں پر کام کرتے ہیں اور اساتذہ  سے انفرادی طور پر رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

سکول کے سربراہ ڈومینک لیشٹی کہتے ہیں، “ہمارے پاس ایسا کوئی بچہ نہیں ہے جسے پڑھائی میں مشکل کا سامنا ہو۔ وہ سب تعلیمی لحاظ سے پھل پھول رہے ہیں” اور اپنی اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے مضمون کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، مِل جُل کر کام کرنا سیکھتے ہیں، اور استقامت اور مستقل مزاجی جیسی مہارتیں حاصل کرتے ہیں۔

جنید قریشی کہتے ہیں کہ ان کی دونوں بیٹیوں کو “سکول جانا اتنا زیادہ اچھا لگتا ہے …  کہ بعض اوقات ہمیں پریشانی ہونے لگتی ہے کہ بچے جب گھر آتے ہیں تو اتنے زیادہ خوش کیوں ہوتے ہیں۔ کیا وہ واقعی سکول میں کچھ سیکھ  رہے ہیں؟” انہوں نے یہ بات وائس آف امریکہ کو بتائی۔

9 سالہ ہالی تھامسن نے کہا، “آپ کو خود یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ آپ کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی ٹیچر آپ کے ہاتھ میں ایک پرچہ تھما دے جس پر یہ لکھا ہو کہ آپ کو یہ کام کرنا ہے۔ بلکہ آپ کو اپنے اہداف خود مقرر کرنا ہوتے ہیں۔”

لیشٹی کہتے ہیں کہ سکول کے طالب علموں کی کارکردگی کے بارے میں اعداد یا حروف والے گریڈ تیار نہیں کیے جاتے بلکہ “بیانیے کی شکل میں سکول اپنا تبصرہ” فراہم کرتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے، “جب وہ متن پر عبور حاصل کرلیتے ہیں تو مہارتوں کے اگلے سیٹ پر چلے جاتے ہیں۔”

طالب علموں کی استعداد کی پیمائش کے لیے معیار مقرر ہیں۔ طالب علم باقاعدگی سے قومی سطح کے میعاری امتحانات میں شریک ہوتے ہیں۔

اس موسمِ خزاں میں یہ سکول  نویں جماعت کی کلاس شروع کرے گا اور لیشٹی کا کہنا ہے کہ سکول کا اس سال ذہین طالبعلموں کو ‘انٹرنیشنل بیک لاریئیٹ’ نامی ڈپلومہ دینے کا خیال ہے۔ یاد رہے کہ یہ ڈپلومہ اُن بچوں کو دیا جاتا ہے جو اپنی کلاس کے مطلوبہ مضامین کی اعلٰی درجوں کی پڑھائی کرتے ہیں۔

Student adjusting a remote-controlled car (Courtesy of Khan Academy)
ایک طالبہ ایک روبوٹ کی نمائش کر رہی ہے جو اس نے سکول کی ‘تصوراتی شام’ کے ایک پراجیکٹ کے لیے بنایا ہے۔ (Courtesy photo)

سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے لیشٹی کا کہنا ہے کہ ہمارا دوسرے ٹیچروں کو اس بات کی تربیت دینے کا پروگرام ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کی کلاسوں، سکولوں اور سکول کے ڈسٹرکٹس میں کس طرح انفرادی تدریس کو متعارف کرا سکتے ہیں۔

اپنے ورثے کی مناسبت سے، سکول کا یہ منصوبہ بھی ہے کہ اپنے طریقۂ کار کے بارے میں وڈیو تیار کی جائیں۔

تمام تصاویر خان لیب سکول نے فراہم کی ہیں۔