شمالی کوریا کی کاروائیوں سے شہری ہوابازی کو خطرہ

آپ پر کیا بیتے گی اگر آپ ہوائی جہاز میں سفر کر رہے ہوں اور کھڑکی سے باہر دیکھیں تو آپ کو ایک میزائل دکھائی دے؟

مشرقی ایشیا میں سفر کرنے والے لوگوں کے لیے یہ کوئی انہونا خیال نہیں ہے۔ 28 نومبر 2017 کو سان فرانسسکو سے ہانگ کانگ جانے والی پرواز کے عملے نے شمالی کوریا کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے ٹکڑے فضا میں اڑتے دیکھے۔

وینکوور میں جزیرہ نما کوریا میں سکیورٹی اور استحکام پر تبادلہِ خیالات کے لیے اکٹھے ہونے والے 20 ممالک کے وزرا کے ساتھ اپنی ملاقات میں وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے کہا، “شمالی کوریا کے میزائل یا اس کے حصوں کے کسی سویلین جہاز کو نقصان پہنچانے کے امکانات حقیقی ہیں۔” اس اجلاس میں وہ اقوام اکٹھی ہوئیں تھیں جو شمالی کوریا کے خطرناک جوہری اور بیلسٹک  میزائلوں کے پروگراموں کو روکنے میں یکسو ہیں۔

ٹِلرسن نے امریکہ کے ہوابازی کے ادارے کے اُن اعداد و شمار کا حوالہ دیا جن کے مطابق متذکرہ بالا پرواز اُس مقام سے  280 ناٹیکل میل دور تھی جہاں پر یہ میزائل گرا۔ اںہوں نے مزید بتایا کہ اسی فاصلے پر اُس وقت نو دیگر پروازیں بھی علاقے سے گزر رہی تھیں۔

 

Animated image showing flight paths over and near North Korea (State Dept.)
فضائی پروازوں کے راستوں کا تصویری خاکہ۔ (State Dept.)

انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق اُس دن 716 پروازوں نے مجموعی طور پر 152,110 مسافروں کو لے کر اسی علاقے سے گزرنا تھا۔

ٹِلرسن نے ایک نقشے کے سامنے بیٹھے جس پر مشرقی ایشیا جانے والے سینکڑوں طیاروں کو زرد رنگ میں دکھایا گیا تھا، کہا، “یہ بہت سے ممالک کے بہت سے لوگوں کو بیلسٹک میزائلوں کے غیرذمہ دارانہ تجربات سے خطرے میں ڈالنا ہے۔”

“شمالی کوریا کی میزائل داغنے کی ہمہ وقت تیاری، خطے کی فضائی حدود میں سفر کرنے والے دنیا کے تمام ممالک کے شہریوں کے لیے خطرے کا باعت ہے۔” ~ وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن

وزیرخارجہ نے کہا کہ شمالی کوریا نے 2017 میں جاپان کے اوپر سے جو میزائل داغے اُن کے شہری آبادیوں پر گرنے کے امکانات تھے۔

اجلاس کے دوران جنوبی کوریا کی وزیرخارجہ کانگ کیونگ-وا نے کہا، “شمالی کوریا کے جوہری اور میزائلوں کے پروگرام سے درپیش سلامتی کے خطرات اب شمال مشرقی ایشیا تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ حقیقی معنوں میں یہ ایک عالمی خطرہ بن چکے ہیں۔” کئی ایک دیگر وزرا نے بھی خاص طور پر اس چیز کا ذکر کیا کہ شمالی کوریا کے خطرے کی زد میں آنے والے علاقے میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

Secretary Tillerson sitting between two women at table in front of map (© Ben Nelms/Reuters)
جنوبی کوریا کی وزیر خارجہ، کانگ کیونگ-وا (بائیں)، وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن اور کینیڈا کی وزیرخارجہ، کرسٹیا فری لینڈ (دائیں) شمالی کوریا کے بارے میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران۔ (© Ben Nelms/Reuters)

اجلاس کے دوران وزرا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اُن کے ممالک شمالی کوریا پر عائد پابندیوں کا نفاذ سختی سے کریں گے۔ وہ اس بات پر بھی متفق ہوئے کہ شمالی کوریا کو اِن پابندیوں سے بچنے سے روکنے کی خاطر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کے خلاف 2006 میں کیے جانے والے اس کے جوہری تجربات کے بعد پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ کونسل نے 3 ستمبر 2017 کو شمالی کوریا کے چھٹے جوہری تجربے کے بعد  نئی پابندیوں کی منظوری بھی دی۔ صدر ٹرمپ نے نومبر 2017 میں شمالی کوریا کو “دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست” قرار دیا اور 2017 کے اواخر میں عائد کی گئی کئی ایک پابندیوں میں افراد کے ساتھ ساتھ  ٹرانسپورٹ کی کمپنیوں کو بھی ہدف بنایا گیا۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کے علاوہ، بہت سے ممالک نے دیگر کئی ایک اقدامات اٹھائے ہیں جن میں اقتصادی پابندیاں اور شمالی کوریا کے سفارت کاروں کی بیدخلیاں شامل ہیں۔

ٹِلرسن نے کہا، “ہمارے ممالک نے اُس متحدہ پیغام کو دہرایا ہے جو ہم اس حکومت کو پہلے بھی بھجوا چکے ہیں۔ ہمیں جوہری ہتھیاروں سے مسلح شمالی کوریا قبول نہیں۔ ہم سب کی ایک پالیسی اور ایک منزل ہے اور وہ ہے: جزیرہ نما کوریا کو مکمل، قابل تصدیق طریقے سے جوہری ہتھیاروں سے ایسے پاک کرنا کہ دوبارہ یہ ہتھیار نہ بنائے جا سکیں۔”