ایسے میں جب کہ لائبیریا کی صدر جانسن سرلیف جنوری میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کی تیاری کر رہی ہیں، وہ اپنی دوسری اور آخری مدتِ صدارت کے اختتامی ایام میں امریکہ اور اقوام متحدہ کی مستقل حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کر رہی ہیں۔
سرلیف، لائبیریا کو ایک جمہوری ملک بنانے میں مدد دینے، 2003 میں ملکی خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد اس کی معیشت کو مضبوط بنانے اور 2014 میں پیدا ہونے والے ایبولا بحران کے دوران امداد مہیا کرنے کا سہرا، امریکہ اور اقوام متحدہ کے سر باندھتی ہیں۔
19 ستمبر کو اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ” اقوام متحدہ اور افریقی یونین نے امن کے قیام کے مشنوں کی قیادت کر کے افریقہ میں ہونے والے تصادموں میں استحکام لانے کے لیے بیش قیمت خدمات انجام دیں ہیں۔”

امریکی کیپیٹل [کانگریس کی عمارت] کے وزیٹر سنٹر میں امن کے امریکی ادارے کی جانب سے منعقد کردہ ایک تقریب میں سرلیف نے 25 ستمبر کو اپنے حامیوں کو بتایا، ” ہمارے عوام کو حتٰی کہ اپنے تاریک ترین دنوں میں بھی اس امید سے جڑے یہ یقین تھا کہ امریکہ اُن کی مدد کو موجود ہے اور اگر وہ کافی محنت سے کام کریں تو امریکی خواب لائبیریا میں جڑیں پکڑ لے گا۔”
اپنی 2005 کی انتخابی مہم کے بعد 78 سالہ سر لیف، افریقہ میں منتخب کی گئیں پہلی خاتون سربراہِ مملکت بنیں۔ وہ 2011 میں دوبارہ منتخب ہوئیں۔ اُنہوں نے یہ تقریر ایک ایسے وقت کی ہے جب لائبیریا کے عوام 10 اکتوبر کو ایک نئے صدر اور 73 رکنی ایوان نمائندگان کا انتخاب کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ 1944 کے بعد لائبیریا کا پہلا جمہوری اور پُرامن انتقال اقتدار ہوگا۔

2011 میں امن کا نوبیل انعام جیتنے والی سر لیف نے کہا، “انتخاب لائبیریا کو اُس ناقابل واپسی راہ کی سمت میں لے جائے گا جس پر لائبیریا اپنے امن کو پائیدار بنانے اور اپنی نوخیز جمہوریت کو مستحکم کرنے کا سفر شروع کر چکا ہے۔ بلا شک و شبہ، لائبیریا اور افریقی براعظم میں جمہوریت کی مارچ کو روکا نہیں جاسکتا۔”
سرلیف نے اِن خیالات کا اظہار اپنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آخری خطاب کے ایک ہفتے بعد کیا جس میں انہوں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ اقتصادی تبدیلی اور سماجی لچک کی حمایت کرتے ہوئے، جمہوریت، اچھی حکمرانی اور انسانی حقوق کے پھیلاؤ کو جاری رکھا جائے۔
اس ماہ کے اوائل میں، امریکہ کے سیاسی امور کے انڈر سیکرٹری، تھامس شینن نے [افریقی] براعظم کے گوناگوں مسائل سے نمٹنے کی خاطرکئی ایک اُن حکمت عملیوں کو اجاگر کیا جن پر حکومت عمل کرے گی۔ صدر ٹرمپ نے بھی شینن کی طرح، اقوام متحدہ اور افریقی یونین کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔
جیسا کہ صدر کے 20 ستمبر کے افریقی رہنماؤں کے ایک ورکنگ لنچ سے واضح ہوا ہے، ٹرمپ انتظامیہ افریقہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دیتی ہے۔
اس تقریب میں انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ کے صحت اور انسانی خدمات کے وزیر ٹام پرائس، افریقہ میں عالمی صحت کی سلامتی کے امریکی ایجنڈے کے فروغ کے لیے کام کریں گے۔ اور جنوبی سوڈان اور جمہوریہ کانگو میں تشدد کے سلسلے میں، ٹرمپ، [امریکہ کی] اقوام متحدہ میں سفیر، نکی ہیلی کو تنازعات کی روک تھام اور اُن کے حل کے لیے افریقہ بھیجیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن اور یو ایس ملینیم چیلنچ کارپوریشن، آئیوری کوسٹ میں سینکڑوں ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے کہا، “افریقہ، میں کہوں گا، ایک ایسا براعظم ہے جس میں زبردست قسم کے مواقع موجود ہیں۔ [اس کا] مستقبل روشن ہے۔”
یہ مضمون فری لانس مصنف لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا ہے۔