“آپ اسے بند کرنا چاہیں گے،” یہ الفاظ ڈاکٹر ولیم نووک کے ہیں جو ایک بچے کے دل کا آپریشن کرنے والے عراقی سرجن کو سمجھا رہے تھے۔ وہ عالمی ٹیم کی رکن کے طور پر اپنے ساتھ عراقی شہر کربلا آنے والی امریکی نرس سے پوچھ رہے تھے، “دباؤ کتنا ہے؟”
نووک دل کی سرجری کا ایک گشتی ادارہ چلاتے ہیں۔ ‘نووک قلبی اتحاد’ نامی اس ادارے کی بنیاد امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر میمفس میں رکھی گئی تھی جو 2004ء سے دنیا کے بعض انتہائی تباہ حال علاقوں میں بچوں کے دل کا علاج کر رہا ہے۔ اس کے بانی نووک نے انفرادی طور پر یہ کام 1993ء میں شروع کیا تھا۔
عراق میں ایک آپریشن کی نگرانی کے دوران اپنے کام کی بابت ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے نووک نے بتایا کہ انہوں نے بچوں کی سرجری کے حوالے سے عالمی سطح پر یہ کام بلقان کے جنگ زدہ علاقے سے شروع کیا تھا۔ انہوں نے کئی سال تک چرنوبیل تابکاری سے متاثرہ بچوں کے آپریشن بھی کیے۔ حال ہی میں انہوں نے دیگر جگہوں کے علاوہ لبنان میں حزب اللہ کے زیرتسلط علاقوں میں بھی کام کیا ہے۔

نووک اور ان کا عملہ ایسی خطرناک جگہوں پر جاتا ہے جہاں دوسرے لوگ نہیں جاتے۔ وہ پانچ مرتبہ یمن جا چکے ہیں۔ رواں سال اتحاد کی سرجیکل ٹیموں نے لیبیا کے مشرقی حصے میں سیاسی عدم استحکام کے باعث دو سالہ تعطل کے بعد بن غازی کے دوروں کا سلسلہ مکمل کیا۔
حال ہی میں اتحاد نے اپنی توجہ عراق کی جانب مبذول کی جہاں دل میں پیدائشی نقائص کی شرح بہت بلند ہے۔ ہر سال قریباً 5500 عراقی بچے دل میں ایسے مہلک نقائص لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ 2010ء سے پہلے طبی وسائل کی کمی کے باعث ان میں صرف 400 بچوں کی زندگی بچانے کا آپریشن ہی ہو پاتا تھا۔
2010ء میں عراق میں ایک امریکی کے قائم کردہ امدادی ادارے ‘اتحاد برائے مقدم پیار’ نے نووک کو عراق آنے کی دعوت دی۔ یہ تنظیم 2007ء سے عراقی بچوں کو سرجری کے لیے اسرائیل بھیج رہی تھی۔
‘اتحاد برائے مقدم پیار’ کے رکن میتھیو ولنگہیم کے مطابق اسرائیل کے ساتھ کیا جانے والا یہ بندوبست دیرپا نتائج کا حامل نہیں تھا کیونکہ اس سے عراق میں ڈاکٹروں کی تربیت میں مدد نہیں ملتی تھی۔

اس کا متبادل ڈھونڈتے ہوئے ولنگہیم نے سوچا “کون ایسا سر پھرا ہو گا جو جنگ کے دوران یہاں آئے اور مقامی ڈاکٹروں کو تربیت دے تاکہ ہم عراقی طبی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کر سکیں؟’
اس سوال کا جواب ‘نووک’ تھا۔ دیرپا پروگرام تشکیل دینے کے حوالے سے نووک وضاحت کرتے ہیں کہ “اگر میں خود تمام آپریشن کروں تو مقامی ڈاکٹروں کو زیادہ تجربہ حاصل نہیں ہو پائے گا۔”
بیشتر ڈاکٹروں کو دل کے مخصوص نقائص پر کام کرتے ہوئے محض مدد درکار ہوتی ہے۔ بعض کو بچوں کی سرجری کی پیچیدگیوں کی بابت تربیت دینا ہوتی ہے جو کہ بڑوں کے آپریشن کی نسبت کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔
یہ اتحاد اس ضرورت پر پورا اترتا ہے، خصوصاً جنگی حالات میں ڈاکٹروں کو کسی امتیاز کے بغیر دل کی بیماری میں مبتلا تمام بچوں کی یکساں نگہداشت کی تحریک دیا جانا بہت ضروری ہے۔ ولنگہیم کہتے ہیں، “اگر آپ ہر ایک کے ساتھ کام کا فیصلہ نہ کریں تو عراق جیسی منقسم جگہ پر دیانتداری اور نیک نامی کے ساتھ یہ کام کرنا واقعی مشکل ہے۔”
نووک یہ امر یقینی بنانے میں مدد دے رہے ہیں کہ عراقی ڈاکٹر یہی کچھ کریں۔ انہیں امید ہے کہ عالمی اور حکومتی شراکت کاروں کی مزید معاونت کی بدولت بہت جلد سرجری میں انتظار کے وقفے اورنتیجتاً اموات میں مزید کمی لائی جا سکے گی۔