شمالی کوریا کے منحرفین کو پینس کا سلام

نائب صدر پینس (درمیان میں) اور اُن کی اہلیہ، کیرن (بائیں سے تیسرے) شمالی کوریا کے منحرفین اور اوٹو وارمبائیر کے والد، فریڈ وارمبائیر (دائیں سے تیسرے ) سے مل رہے ہیں۔ (© Woohae Cho/Getty Images)

نائب صدر پینس نے شمالی کوریا کے چار منحرفین کی دلیری کو سلام پیش کیا ہے جو اپنی جانوں پر کھیل کر قید خانے جیسی اس ریاست سے فرار ہوئے۔ شمالی کوریا کی حکومت اپنے ہی شہریوں پر تشدد کرتی ہے اور اس نے انہیں غربت میں جکڑ رکھا ہے۔

نائب صدر نے 9 فروری کو پیانگ چانگ میں سرمائی اولمپک کھیلوں کے آغاز سے قبل سیئول میں بات کرتے ہوئے کہا، “ہم آپ کی بہادری سے متاثر ہوئے ہیں۔” اس سے قبل انہوں نے شمالی کوریا کو  “کرہ ارض کی جابر ترین حکومت” قرار دیا۔

9 فروری کو فریڈ وامبائیر بھی نائب صدر کے ساتھ تھے جو شمالی کوریا کے دورے میں قید کیے جانے والے امریکی طالب علم اوٹو وامبائیر کے والد ہیں۔ اوٹو وامبائیر کو جب قید سے رہا کیا گیا تو وہ بے ہوشی کی حالت میں تھے اور اوہائیو میں اپنے آبائی گھر پہنچنے کے بعد انتقال کر گئے۔

پینس نے منحرفین کو بتایا کہ وہ یہ بات “یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی داستان سنے۔ ” منحرف ہونے والے ان چار افراد میں جی سیئونگ ہو بیساکھیوں کے سہارے شمالی کوریا سے فرار ہوئے جنہیں صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بھی خراج تحسین پیش کیا تھا۔

آزادی کے لیے شمالی کوریا سے فرار ہونے والے ایک اور فرد، ہیون سیو لی کا کہنا تھا، “ایک ایسے وقت میں جبکہ میڈیا کی توجہ اولمپکس پر ہے، ہمیں شمالی کوریا کے اُن کروڑوں لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے جو انتہائی شدید سردی میں زندگی گزارنے کی جدوجہد میں مصروف  ہیں۔”

ہیون اور جی نے حال ہی میں وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔

پینس نے بلیو ہاؤس میں جنوبی کوریا کے صدر، مون جے ان سے بھی ملاقات کی جس کے بعد انہوں نے کہا، “ہم نے شمالی کوریا کی حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے مشترکہ مقاصد پر تبادلہ خیال کیا۔”

پینس نے کہا، “ہم غیرمتزلزل عزم کے ساتھ آپ کے ہمراہ کھڑے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ دنیا کو شمالی کوریا کے خوشامدانہ اور پرفریب اقدامات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا، “وقت آ گیا ہے کہ شمالی کوریا جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے اپنے عزائم کا مستقل طور پر خاتمہ کرے۔”

نائب صدر نے 2010 میں شمالی کوریا کی آبدوز کے ایک حملے میں ہلاک ہونے والے جنوبی کوریا کے 40 فوجیوں کی یادگار کا دورہ بھی کیا۔