
غلامی کے خلاف سرگرم شخصیت، ہیریٹ ٹبمین جو خود بھی 1849ء میں غلاموں کے ظالم مالکان سے جان بچا کر بھاگیں تھیں پہلی افریقی نژاد امریکی خاتون ہوں گی جن کی 2020ء کے شروع میں امریکہ کے کرنسی نوٹ پر تصویر چھاپی جائے گی۔ 19ویں صدی کے دوران اُن کی ” زیر زمین ٹرین” پر ایک “کنڈکٹر” کی حیثیت سے کہانی کا امریکیوں کو بخوبی علم ہے اور اِس کہانی کو ریاست میری لینڈ کے اُس دیہی علاقے میں 2017ء میں کھلنے والے ایک تاریخی پارک کے ذریعے نئے سرے سے عام کیا جا رہا ہے جہاں وہ پیدا ہوئیں اور پلی بڑھیں۔
اِس پارک میں دنیا بھر سے وہ سب لوگ کھچے چلے آتے ہیں جو ٹبمین اور افسانوی زیرزمین ٹرین کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ زیرزمین ٹرین ایسے خفیہ راستوں، راہوں اور محفوظ گھروں کا وہ نیٹ ورک تھا جسے آزادی کے متلاشی غلام استعمال کیا کرتے تھے۔
پارک کی اسسٹنٹ مینیجر، اینجیلا کرینشا بتاتی ہیں کہ وہ سیاح جو تاریخ سے واقف نہیں ہیں ممکن ہے وہ اُن سے پوچھیں کہ ‘ریلوے سٹیشن کہاں ہے؟’ اور ‘ریل کی پٹڑی کہاں ہے؟’

دراصل ٹرین کا کوئی وجود نہیں تھا۔ فرار ہونے والے غلام رات کے وقت جنگلوں میں قطبی ستاروں کی راہنمائی میں اپنا راستہ تلاش کرتے تھے۔ جب ممکن ہوتا تو وہ کشتیاں بھی استعمال کرتے تھے تا کہ کتے اُن کی بُو نہ سونگھ پائیں۔ فرار ہونے والوں کو گاڑیوں کے خفیہ خانوں میں چھپا کر سمگل کیا جاتا تھا اور وہ قبرستانوں جیسی اُجاڑ اور بیابان جگہوں پر ملاقاتیں کرتے تھے۔ بہت سے غلام بھیس بدل لیتے تھے۔ پورے سفر کے دوران غلاموں کو پکڑنے والے لوگ فرار ہونے والے اِن غلاموں کا تعاقب کیا کرتے تھے جس کے صلے میں انہیں اعلان کردہ نقد انعامی رقم ملنے کی امید ہوتی تھی۔
اُن کے ” پٹڑی کے بغیر ٹرین” کے نظام کو چلانے والا، ایسے سیاہ فام اور سفید فام ہمدرد لوگوں کا ایک نیٹ ورک تھا جو فرار ہونے والے غلاموں کی مدد کرنے اور اُنہیں چھپانے کے لیے قانون کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ “سٹیشنوں” اور “کنڈکٹروں” جیسی اصطلاحوں کا استعمال کر کے، یہ لوگ رازداری برقرار رکھتے تھے۔ زیر زمین ٹرین پر کام کرنے کا شمار، امریکہ میں سول نافرمانی کی اولین شکلوں میں ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ ٹبمین نے کہا، “میں آٹھ سال تک ریل کے خفیہ راستے پر کنڈکٹر رہی اور میں وہ بات کہہ سکتی ہوں جو بہت سے کنڈکٹر نہیں کہہ سکتے: ‘میں نے اپنی ریل گاڑی کو کبھی بھی پٹڑی سے اترنے نہیں دیا اور میں نے کبھی بھی اپنا کوئی مسافر نہیں کھویا۔ ‘”
بہت سے مسافر، ریل کے خفیہ راستے کے اہم ترین کنڈکٹر اور فلا ڈیلفیا کے آزاد سیاہ فام شخص، ولیم سٹِل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ سٹِل اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ہیں کہ ٹبمین کے بہت سے ہم عصر، ٹبمین کی سلامتی کے بارے میں پریشان رہتے تھے کیونکہ وہ مسلسل کئی ہفتوں تک اپنے سفروں کی وجہ سے غائب رہتی تھیں۔ مگر “وہ ذاتی خوف سے بالکل آزاد تھیں۔ لگتا ہے کہ اُن کے ذہن میں غلاموں کے شکاریوں یا غلام رکھنے والوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کا کبھی خیال تک نہیں آیا۔ وہ تمام دشمنوں کے خلاف ایک واضح ثبوت تھیں۔”

1861 سے لے کر 1865 تک ہونے والی خانہ جنگی میں ٹبمین نے سکاؤٹ، جاسوس اور نرس کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ اںہوں نے شمالی کیرولائنا میں ایک ایسی مسلح مہم کی قیادت بھی کی جس میں 700 سے زائد غلاموں کو آزاد کرایا گیا تھا۔ بعد ازاں اپنی زندگی میں آزادی کے لیے اپنے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے وہ عورتوں کے حقِ رائے دہی کی پرزور حامی بن گئیں اور انہوں نے سوسن بی اینتھونی اور ایملی ہاؤلینڈ جیسی راہنماؤں سے دوستی لگائی۔
جب اُس وقت کے وزیر خزانہ، جیک لیو نے ٹبمین کی تصویر 20 ڈالر کے نوٹ پر چھاپنے کے فیصلے کا اعلان کیا تو انہوں نے اُن کا ذکر”صرف ایک تاریخی شخصیت کے طور پر ہی نہیں کیا بلکہ قیادت اور ہماری جمہوریت میں شرکت کرنے والی ایک قابل تقلید شخصیت کے طور پر بھی کیا۔” 1913ء میں اُن کے انتقال کے 100 برس بعد، اب وہ امریکہ کے مانوس ترین چہروں میں شامل ہونے جا رہی ہیں۔