صدر ٹرمپ نے 26 جنوری کو سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم میں بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور بیسیوں اقوام کے لیڈروں کو یہ پُرزور پیغام دیا: “امریکہ کاروبار کے لیے کھلا ہے۔”
صدر نے اپنے انتخاب کے بعد ہونے والی اپنی اقتصادی کامیابیاں بیان کرتے ہوئے کہا، “امریکہ میں ملازم رکھنے، تعمیر کرنے، سرمایہ کاری کرنے، اور ترقی کرنے کا جتنا بہتر وقت آج ہے اتنا بہتر وقت پہلے کبھی نہیں رہا۔” یہ کامیابیاں دسمبر 2017 میں ٹیکس میں کی جانے والی کٹوتیوں کو قانونی شکل دینے سے قبل حاصل کی گئیں تھیں۔
سوئٹزرلینڈ کے کوہِ ایلپس کے قصبے ڈیووس کے سالانہ اجتماع کے بانی اور ایگزیکٹو چیئرمین، کلاؤس شواب نے کہا کہ امریکہ میں ٹیکس میں کی جانے والی کٹوتیاں “عالمی معیشت کو زبردست بڑھاوا” دے رہی ہیں۔
“۔ امریکہ زور شور سے واپس آ رہا ہے اور امریکہ کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کا یہ وقت ہے۔”
~ صدر ٹرمپ
صدر ٹرمپ نے کاروباری سربراہوں کو بتایا، ” امریکہ کاروبار کرنے کی جگہ ہے۔ لہذا امریکہ آئیں جہاں آپ اختراع سازی، تخلیق، اور تعمیر کر سکتے ہیں.”
صدر نے فورم کے اختتامی اجلاس میں 3,000 لیڈروں کو یقین دہانی کرائی کہ “امریکہ پہلے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکیلا امریکہ ہی ایسا کرے۔ جب امریکہ ترقی کرتا ہے تو دنیا ترقی کرتی ہے۔”
انہوں نے امریکہ کے “ایک بہتر دنیا کی تعمیر” میں دوست اور شراکت کار ہونے کے عزم کا اعادہ کیا اور تجارت کے ایک آزادانہ اور منصفانہ عالمی نظام کے لیے اپنا مطالبہ دہرایا۔
انہوں نے کہا، “اگر کچھ ممالک دوسرے ممالک کی قیمت پر نظام کا استحصال کریں گے تو ایسی صورت میں ہم آزاد اور کھلی تجارت نہیں کرسکیں گے۔ ہم آزاد تجارت کی حمایت کرتے ہیں مگر اس کے منصفانہ ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے دوطرفہ ہونے کی ضرورت ہے۔”
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ وسیع پیمانے پر ملکِ دانش کی چوری، صنعتی شعبے میں اعانتی رقومات، اور “سرکاری سرپرستی میں موثر اقتصادی منصوبہ بندی” سمیت، غیرمنصفانہ کاروائیوں پر “اب آنکھیں بند نہیں کرے گا۔” یہ اور اسی نوعیت کے دیگر استحصالی رویے عالمی منڈیوں میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں کاروباروں اور محنت کشوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ تمام ممالک کے ساتھ باہمی طور پر مفید، دو طرفہ تجارتی سمجھوتوں پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اِس میں ٹرانس پیسیفک پارٹرنر شپ [بحرالکاہل کے آرپار کی شراکت داری] کا وہ سمجھوتہ بھی شامل ہے جس سے حکومت گزشتہ برس علیحدگی اختیار کر چکی ہے۔
امریکہ کے پہلے سے ہی اِن میں سے بہت سے ممالک کے ساتھ دوطرفہ سمجھوتے موجود ہیں اور امریکہ “باقیماندہ ممالک کے ساتھ انفرادی طور پر یا شاید ایک گروپ کی شکل میں مذاکرات کرنے پر غور کرے گا بشرطیکہ یہ سب کے مفاد میں ہو۔”
صدر نے کہا کہ امریکی افواج پر اٹھنے والے اخراجات سے دنیا مزید محفوظ ہوگی۔ انہوں نے دیگر ممالک سے کہا کہ وہ اپنے حصے کا کام کریں۔
انہوں نے ” جزیرہ نمائے کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے …اور مہذب دنیا کو متحد کرنے کی تاریخی کوششوں” کی قیادت کرنے پر فخر کا اظہار کیا۔
انہوں نے شراکت دار اقوام سے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے راستے کو روکنے اور داعش کا ملیہ میٹ کرنے اور اس کے “بُرے نظریات کا توڑ نکالنے” کے خلاف کامیاب مہم کو جاری رکھنے کا کہا۔
انہوں نے کہا، ” جب معاملہ دہشت گردی کا ہو تو ہم وہ سب کچھ کریں گے جو ہماری قوم کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ ہم اپنے شہریوں اور سرحدوں کا دفاع کریں گے۔”