قومی سالمیت اور آزادی کی حمایت پر زور دیتے ہوئے، صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے 6 جولائی کو پولینڈ، وسطی اور مشرقی یورپ اور نیٹو کے اتحاد کے ساتھ امریکی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے وارسا کے کراسِنسکی سکویر میں 6 جولائی کو پولش عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “آزاد اور خود مختار اقوام کا مضبوط اتحاد، ہماری آزادیوں اور ہمارے مفادات کا بہترین محافظ ہے۔”
صدر نے 7 اور 8 جولائی کو ہمبرگ، جرمنی میں دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے اجلاس سے قبل، پولینڈ کا دورہ کیا۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ صدر کا دوسرا بیرونی دورہ ہے۔
صدرن نے نازی اور سوویت قبضوں اور کمیونزم کے دوران پولینڈ کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “مضبوط پولینڈ یورپی اقوام کے لیے ایک نعمت ہے۔ مضبوط یورپ مغرب اور دنیا کے لیے ایک نعمت ہے۔”
اقتصادی قیادت
پولینڈ میں اپنے قیام کے دوران، صدر ٹرمپ نے پولش صدر آندرے دودا سے ملاقات کی اور ‘تھری سیز انشی ایٹو’ [تین سمندروں کے ابتدائیے] کے علاقائی لیڈروں سے خطاب کیا۔ تھری سیز انشی ایٹو، بحیرہ بالٹک، اور بحیرہ ایڈریاٹک، بحیرہ اسود کے ارد گرد آباد وسطی اور مشرقی یورپی ممالک اورمغربی یورپ کے 12 ممالک کے درمیان معاشی تعاون کو بڑہانے کا کام کرتا ہے۔

صدر نے کہا، ” تھری سیز انشی ایٹو نہ صرف لوگوں کو خوشحال ہونے کے لیے با اختیار بنائے گا بلکہ یہ اِس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ آپ کے ممالک خودمختار، محفوظ اور غیرملکی دھمکیوں سے محفوظ رہیں۔”
اُنہوں نے اِس خطے میں امریکہ کی طرف سے مائع گیس کی حالیہ ترسیل کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکہ اور یورپ کے درمیان توانائی کی تجارت مستقبل کی ترقی کا ایک اہم عنصر ہے۔
صدر نے کہا، “جب آپ کی اقوام مضبوط ہوتی ہیں، تو یورپ کی تمام آزاد اقوام مضبوط تر ہو جاتی ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ مغرب بھی مضبوط تر ہو جاتا ہے۔”
سکیورٹی کی قیادت
صدر ٹرمپ نے معاہدہِ شمالی اوقیانوس کی تنظیم یعنی نیٹو کے آرٹیکل 5 کے ساتھ امریکی عزم کا اعادہ بھی کیا۔ اِس آرٹیکل کے تحت کسی ایک رکن کے خلاف حملہ تمام ارکان کے خلاف حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ امریکہ نیٹو افواج کا تقریباً 70 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، “امریکہ نے محض الفاظ سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی اِس بات کو ثابت کیا ہے کہ ہم مضبوطی سے آرٹیکل 5 کے تحت باہمی دفاع کے عزم کے ساتھ کھڑے ہیں۔”
صدر ٹرمپ نے پولینڈ کے اپنی مجموعی پیداوار کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے کے اپنے وعدے کا پاس کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کی تعریف کی۔ “پولینڈ نہ صرف ایک عظیم دوست ہے بلکہ ایک سچا اتحادی بھی ہے۔”
اِس بیان کی پولینڈ میں خصوصی پذیرائی ہوئی کیونکہ پولینڈ میں امریکہ نے 5,000 فوجی تعینات کر رکھے ہیں جو پولش فوج کی تربیت میں مدد کرتے ہیں۔ پولش کے فوجی، عراق اور افغانستان میں نیٹو کی کاروائیوں میں امریکہ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
بین الاقوامی قوت

صدردودا کے ساتھ اپنی ملاقات میں صدرٹرمپ نے، پولینڈ کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں اس کے حالیہ انتخاب پر مبارکباد دی۔
صدر ٹرمپ نے کہا، “پولینڈ سلامتی کونسل میں ایک نازک وقت میں شامل ہوا ہے۔ نہ صرف ہمیں اپنی اقوام کو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ بنانا ہے بلکہ ہمیں شمالی کوریا کے خطرے سے بھی نمٹنا ہے۔”
صدر نے تمام اقوام سے کہا کہ وہ “اِس عالمی خطرے کا سامنا کریں اور شمالی کوریا کو اِس بات کا عملی مظاہرہ کر کے دکھائیں کہ اُس کے اِس انتہائی خراب رویے کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔”
اُن کے بیان میں امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر، نکی ہیلی کے ایک دن قبل دیئے جانے والے بیان کی بازگشت سنائی دی۔
صدر نے کہا، “صدیوں پر پھیلے ہوئے مصائب پر پولش روح کی کامرانی، ہمیں وہ امید دلاتی ہے جس میں نیکی بدی پر غالب آتی ہے اور امن کو جنگ کے خلاف فتح حاصل ہوتی ہے۔”
صدر ٹرمپ کے وارسا کے کراسِنسکی سکویر میں خطاب کے اقتباسات:
“وائٹ ہاؤس
پریس سیکرٹری کا دفتر
6 جولائی 2017
صدر ٹرمپ کے پولینڈ کے عوام سے خطاب سے اقتباسات
کراسِنسکی سکویر
وارسا، پولینڈ
سی ای ایس ٹی وقت کے مطابق سہ پہر ایک بجکر 16 منٹ
* * *
اس شہر میں کھڑا ہونا، وارسا شورش کی یادگار کے پاس کھڑا ہونا اور اُس پولش قوم سے خطاب کرنا ایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے جس کی کئی نسلیں ایک محفوظ، مضبوط اور آزاد پولینڈ کا خواب دیکھتی رہی ہیں۔ ( تالیاں)
* * *
صدیوں پر پھیلے ہوئے مصائب پر پولش روح کی کامرانی، ہمیں وہ امید دلاتی ہے جس میں نیکی بدی پر غالب آتی ہے اور امن کو جنگ کے خلاف فتح حاصل ہوتی ہے۔
پولینڈ امریکی قوم کی ابتدا سے، امریکیوں کے لیے امید کی ایک علامت چلا آ رہا ہے۔ پولش ہیرو اور امریکی محبانِ وطن ہماری جنگ آزادی اور بعد میں ہونے والی بہت سی جنگوں میں شانہ بشانہ لڑ چکے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں ہمارے سپاہی، پولش سپاہیوں کے ساتھ پوری تہذیب کے دشمنوں کے خلاف لڑائی میں اکٹھے مل کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اپنے تئیں امریکہ، حریت اور آزادی کے پولش عوام کے حق اور مقدر سے، کبھی بھی دستبردار نہیں ہوا اور نہ ہی ہم آئندہ اس سے کبھی دستبردار ہوں گے۔ ( تالیاں)
* * *
چار عشروں پر پھیلی کمیونسٹ حکمرانی کے دوران، پولینڈ اور یورپ کی دیگر مجبور اقوام نے آزادی، آپ کے عقیدے، آپ کے قوانین، آپ کی تاریخ، آپ کی شناخت — اور بلاشبہ آپ کی ثقافتی روح اور آپ کی انسانیت کو مٹانے کی ایک ظالمانہ مہم برداشت کی۔ ( تالیاں) آپ پر ظلم کرنے والوں نے آپ کو توڑنے کی کوشش کی مگر پولینڈ کو توڑا نہ جا سکا۔ ( تالیاں)
اور جب 2 جون 1979 کا وہ دن آیا جس دن پولش پوپ کے ہمراہ اپنی پہلی اجتماعی عبادت کے لیے 10 لاکھ پولش وکٹری سکویر کے اردگرد اکٹھے ہوئے۔ اُس دن، وارسا میں ہر ایک کمیونسٹ نے یقیناً یہ جان لیا ہوگا کہ اُن کا ظالمانہ نظام عنقریب منہ کے بل نیچے آ گرے گا۔ ( تالیاں) اُنہیں پوپ جان پال دوئم کے واعظ کے دوران بالکل اُسی لمحے اِس کا یقیناً پتہ چل گیا ہوگا جب دس لاکھ پولش مردوں، عورتوں اور بچوں نے ایک ہی دعا کے دوران اچانک اپنی آوازیں بلند کیں۔ دس لاکھ پولش لوگوں نے دولت نہیں مانگی تھی۔ اُنہوں نے مراعات نہیں مانگیں تھیں۔ اس کی بجائے دس لاکھ پولشوں نے تین سیدھے سادے الفاظ گائے تھے: “ہم خدا مانگتے ہیں۔” ( تالیاں)
اُن الفاظ میں، پولش عوام نے ایک بہتر مستقبل کے وعدے کو یاد کیا۔ اُنہیں اپنے ظالموں کو شکست دینے کی ہمت ملی اور اُنہیں ‘پولینڈ ایک بار پھر پولینڈ ہوگا’ کا اعلان کرنے کے الفاظ مل گئے۔
* * *
ایک مضبوط پولینڈ یورپی اقوام کے لیے ایک نعمت ہے اور اُنہیں اس کا علم ہے۔ ایک مضبوط یورپ مغرب اور دنیا کے لیے ایک نعمت ہے۔ ( تالیاں) امریکی افواج کی پہلی جنگ عظیم میں شمولیت کے ایک سو سال بعد، امریکہ اور یورپ کے بحر الکاہل کے آرپار بندھن، آج بھی اتنے ہی مضبوط ہیں جتنے پہلے تھے۔ بلکہ کئی لحاظ سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
اِس براعظم کو اب کمیونزم کے عفریت کا سامنا نہیں ہے۔ مگر آج ہم مغرب میں ہیں اور ہمارا یہ کہنا ہے کہ ہماری سلامتی اور ہمارے طرزِ زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ خطرہ ہیں۔ ہم اُن کا سامنا کریں گے۔ ہم جیتیں گے۔ لیکن وہ خطرہ ہیں۔
* * *
سعودی عرب میں تاریخی اجتماع کے دوران میں نے 50 مسلمان ممالک کے لیڈروں سے کہا کہ وہ اُس خطرے کو ختم کرنے کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہوں جس سے پوری انسانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ اپنے اِن مشترکہ دشمنوں کے خلاف ہمیں، اُن کو اُن کے علاقوں سے نکالنے اور مالی وسائل، اُن کے نیٹ ورکوں اور اُنہیں حاصل کسی بھی قسم کی ممکنہ حمایت سے محروم کرنے کی خاطر، لازماً متحد ہونا چاہیے۔ اگرچہ ہم ہمیشہ ایسے نئے شہریوں کا خیر مقدم کریں گے جو ہماری اقدار کا احترام اور ہمارے عوام سے محبت کرتے ہیں، مگر کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لیے ہماری سرحدیں ہمیشہ بند رہیں گی۔ …. ہم بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کے خلاف سخت جنگ لڑ رہے ہیں اور ہم غالب آئیں گے۔ ہم اُن لوگوں کو قبول نہیں کر سکتے جو ہماری اقدار کو مسترد کرتے ہیں اور جو بے گناہوں کے خلاف تشدد کا جواز مہیا کرنے کے لیے نفرت کا استعمال کرتے ہیں۔
آج، مغرب کو اُن قوتوں کا بھی سامنا ہے جو ہماری استقامت کا امتحان لینے، ہمارے اعتماد کو کمزور کرنے، اور ہمارے مفادات کو چیلنج کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ پراپیگنڈے، مالی جرائم، اور سائبر جنگ سمیت، جارحیت کی نئی شکلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اتحاد کو موثر انداز سے تمام نئے جنگی میدانوں میں نئے طریقوں کے مطابق لازماً ڈھالنا ہوگا۔
ہم روس پر زور دیتے ہیں کہ وہ یوکرین اور دیگر مقامات پر اپنی عدم استحکام کی کاروائیاں، اور – شام اور ایران سمیت – مخالفانہ حکومتوں کے حق میں اپنی حمایت بند کرے اور اِس کی بجائے ہمارے مشترکہ دشمنوں کے خلاف ہماری جنگ اور تہذیب کے دفاع کے لیے، ذمہ دار اقوام کی برادری میں شامل ہو۔ ( تالیاں)
آخر میں، ہمارے شہریوں کو بحر الکاہل کے دونوں طرف، ایک اور خطرے کا سامنا ہے – ایک ایسا خطرہ جو مکمل طور پر ہمارے قابو میں ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ خطرہ دکھائی نہیں دیتا، مگر پولش لوگ اِس سے واقف ہیں: یعنی حکومتی افسرشاہی کی تسلسل سے ایسی مداخلت جو لوگوں کی قوت میں ضعف پیدا کرتی ہے اور جس سے دولت ضائع ہوتی ہے۔ مغرب کاغذی کاروائیوں اور ضابطوں کی وجہ سے عظیم نہیں بنا بلکہ اِس لیے عظیم بنا کہ لوگوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے اور اپنی منزل پا لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
امریکی، پولش اور یورپی اقوام انفرادی آزادی اور سالمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ خواہ یہ قوتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، جنوب سے آئیں یا مشرق سے، ہمیں ہر صورت میں اُن قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیے جن سے وقت کے ساتھ ساتھ ہماری اقدار کو کمزور بنانے اور ہمارے ثقافتی، مذہبی، روایات کے اُن بندھنوں کو توڑنے کے خطرات لاحق ہیں جو ہمیں وہ کچھ بناتی ہیں جو کچھ ہم ہیں۔ ( تالیاں) اگر اِن کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو یہ قوتیں ہماری حوصلہ شکنی کریں گی، ہماری روح پر بوجھ بن جائیں گی اور ہمیں اپنا دفاع آپ کرنے اور اپنے معاشروں کا دفاع کرنے کے ہمارے عزم کو کمزور بنا دیں گی۔
اور بالکل اُسی طرح جس طرح ہمارے مخالفین اور ماضی کے دشمنوں نے یہاں پولینڈ میں سیکھا، ہم جانتے ہیں کہ یہ قوتیں بھی، بربادی اور ناکامی سے دوچار ہوں گی، بشرطیکہ ہم چاہیں کہ وہ ناکام ہوں۔ اور ہم واقعی چاہتے ہیں کہ وہ ناکام ہوں۔ ( تالیاں) وہ صرف اس لیے نہیں برباد ہوں گی کہ ہمارا اتحاد مضبوط ہے، ہمارے ممالک میں استقامت ہے، اور ہماری طاقت کا کوئی ہم پلہ نہیں۔ اِن سب چیزوں کے بارے میں آپ کو یہ کہنا ہے کہ اِن میں سے ہر ایک سچ ہے۔ ہمارے مخالفین اس لیے برباد ہوں گے کیونکہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے کہ ہم کون ہیں۔ اگر ہم یہ نہ بھولیں کہ ہم کون ہیں، ہمیں کوئی نہیں شکست دے سکتا۔ امریکی کبھی نہیں بھولیں گے۔ یورپ کی اقوام کبھی نہیں بھولیں گی۔ ہم تیز ترین اور عظیم ترین کمیونٹی ہیں۔ ہماری قوموں کی برادری جیسی کوئی برادری نہیں ہے۔ دنیا نے ہم جیسی قوموں کی برادری کبھی نہیں دیکھی۔
* * *
ہم [موسیقی کی] سمفنیاں ترتیب دیتے ہیں۔ ہم اختراعات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے قدیم ہیروز کے جشن مناتے ہیں، اپنی دائمی روایات اور رواجوں کو گلے لگاتے ہیں اور ہمیشہ نئی سرحدوں کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم ذہانت کا صلہ دیتے ہیں۔ ہم اعلٰی ترین معیار کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور خدا کا احترام کرنے والے آرٹ کے متاثرکن فن پارے ہمیں عزیز ہوتے ہیں۔ ( تالیاں)
ہم عورتوں کو اپنے معاشرے اور اپنی کامیابی کے ستونوں کی حیثیت سے با اختیار بناتے ہیں۔ ہم، حکومت اور افسرشاہی کو نہیں بلکہ عقیدے اور خاندان کو اپنی زندگیوں میں مرکزی مقام دیتے ہیں۔ اور ہم ہر چیز پر بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ ہم ہر چیز کو چیلنج کرتے ہیں۔ ہم ہر چیز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے آپ کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ ( تالیاں)
اور سب سے بڑھکر، ہم ہر انسانی زندگی کے وقار کا احترام کرتے ہیں، ہر شخص کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، اور ہر روح کی آزادی سے رہنے کی امید میں شریک ہوتے ہیں۔ ہم یہی کچھ ہیں۔ یہ وہ بیش قیمت رشتے ہیں جو ہمیں بحیثیت اقوام، اتحادی اور ایک تہذیب کے یکجا کرتے ہیں۔
جو کچھ ہمارے پاس ہے، جو کچھ ہمیں ورثے میں ملا ہے — کسی بھی شخص کے مقابلے میں آپ بہتر جانتے ہیں، اور آج آپ اسے لوگوں کے اس شاندار گروپ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں — جو کچھ ہمیں ہمارے آباواجداد سے ورثے میں ملا ہے وہ اس حد تک ہمارے پاس پہلے کبھی بھی نہیں رہا۔ اور اگر ہم اسے محفوظ رکھنے میں ناکام ہوں گے تو یہ دوبارہ کبھی بھی وجود میں نہیں آ سکے گا۔ لہذا ہم ناکام نہیں ہو سکتے۔
قوموں کی اِس عظیم برادری میں ایک اور چیز بھی مشترک ہے: یعنی اِن میں سے ہر ایک قوم میں، طاقتور نہیں، بلکہ عوام ہیں جو ہمیشہ آزادی اور ہمارے دفاع کی بنیاد بنے ہیں۔ یہاں پولینڈ میں لوگ وہ بنیاد بن چکے ہیں — جیسا کہ وہ بالکل یہاں وارسا میں بنے تھے — اور وہ [عوام] امریکہ کے شروع شروع کے ایام میں بھی بنیاد بنے تھے۔
ہمارے شہریوں نے اکٹھے مل کر صرف اس لیے آزادی حاصل نہیں کی تھی، اکٹھے مل کر خوفناکیوں سے اس لیے نہیں نکلے تھے، اکٹھے مل کر بدی کو شکست اس لیے نہیں دی تھی کہ وہ اپنی اقدار پر تفاخر اور اعتماد کی کمی کے باعث اپنی آزادی کھو دیں۔ ہم نے ایسا نہیں کیا اور ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ( تالیاں)
* * *
الفاظ آسان ہوتے ہیں مگر اہمیت عملی کاموں کی ہوتی ہے۔ اور اپنے تحفظ کے لیے – اور آپ یہ جانتے ہیں، ہر کوئی جانتا ہے، ہر کسی کو اسے جاننا ہے – کہ یورپ کے لیے لازمی ہے کہ وہ اور زیادہ عملی کام کرے۔ مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر اپنے پیسے کی سرمایہ کاری کے ذریعے، یورپ کو لازمی طور پر اِس بات کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل پر یقین رکھتا ہے۔
اسی لیے ہم پولینڈ کے امریکہ سے جنگ میں آزمودہِ کار، پیٹریاٹ فضائی اور دفاعی نظام کے حصول کے فیصلے پر اِس ہفتے پیش رفت کرنے کی تحسین کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا بہترین نظام ہے۔ ( تالیاں) یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم پولش عوام کو نیٹو کے اُن ممالک میں سے ایک ملک ہونے پر سلام پیش کرتے ہیں جس نے ہمارے مشترکہ دفاع میں سرمایہ کاری کرنے کا ہدف حقیقی طور پر حاصل کر لیا ہے۔ ….
ہمیں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ ہمارا دفاع صرف پیسے کا وعدہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ عزم کی پختگی ہے۔ جیسا کہ پولینڈ کا تجربہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مغرب کے دفاع کا انحصار بالآخر نہ صرف وسائل پر ہوتا ہے بلکہ اِس کا انحصار اِس کے عوام کے غالب آنے اورکامیاب ہونے اور وہ کچھ حاصل کرنے کے پختہ ارادے پر بھی ہوتا ہے جو کچھ اُنہیں حاصل کرنا ہے۔ ہمارے دور کا کلیدی سوال یہ ہے کہ آیا مغرب کا اپنی بقا کا پختہ ارادہ ہے۔ کیا اپنی اقدار کا ہر قیمت پر دفاع کرنے کے لیے ہم میں اِن اقدار کے بارے میں اعتماد پایا جاتا ہے؟ کیا اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے اپنے شہریوں کا ہم معقول احترام کرتے ہیں؟ کیا ہم میں اُن لوگوں کے مقابلے میں اپنی تہذیب کو محفوظ رکھنے کی خواہش اور جرات پائی جاتی ہے جو اسے کمزور اور تباہ کر دیں گے؟ ( تالیاں)
ہماری معیشتیں دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں ہو سکتی ہیں اور ہمارے پاس کرہ ارض پر پائے جانے والے مہلک ترین ہتھیار ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ہمارے گھرانے مضبوط نہیں ہیں اور ہماری اقدار مضبوط نہیں ہیں، تو پھر ہم کمزور ہی رہیں گے اور ہم بچ نہیں سکیں گے۔ ( تالیاں) اگر اِن چیزوں کی نازک اہمیت کو لوگ بھول رہے ہیں تو اُنہیں ایک ایسے ملک میں آنے دیں جس نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا۔ اُنہیں پولینڈ آنے دیں۔ ( تالیاں) اور انہیں یہاں وارسا آنا دیں اور وارسا کی شورش کی کہانی کے بارے میں جاننے دیں۔
* * *
اُن لوگوں کی یادیں جو وارسا کی شورش کے دوران مارے گئے، کئی دہائیوں سے پکار رہی ہیں اور اِن میں سے اُن لوگوں کی یادوں سے زیادہ واضح کوئی آواز نہیں ہے جو یروشلم ایونیو کراسنگ کی تعمیر اور اس کا دفاع کرتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ وہ ہیرو ہمیں یاد دلاتے ہیں: کہ مغرب محب وطنوں کے خون سے بچایا گیا؛ کہ ہر نسل کو اپنے دفاع میں اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے — ( تالیاں) — اور یہ کہ زمین کے ہر ایک فٹ کا، اور تہذیب کے ہر ایک انچ کا اپنی جان سے دفاع کرنے کا حق بنتا ہے۔
مغرب کی خاطر ہماری اپنی جنگ کی ابتدا، میدانِ جنگ سے نہیں ہوتی — بلکہ اِس کی ابتدا ہمارے ذہنوں، ہمارے ارادوں، اور ہماری روحوں سے ہوتی ہے۔ آج، وہ رشتے جو ہماری تہذیب کو متحد کرتے ہیں، زمین کے اُس سپاٹ ٹکڑے سے کم اہمیت نہیں رکھتے اور کم دفاع کا مطالبہ نہیں کرتے جس پر ایک وقت میں پولینڈ کی امید کا کلی طور پر انحصار تھا۔ ہماری آزادی، ہماری تہذیب، اور ہماری بقا کا انحصار، تاریخ، ثقافت اور یاد کے بندھنوں پر ہے۔
اور آج ہمیشہ کی طرح، پولینڈ ہمارے دل میں ہے اور اِس کے لوگ اُس جنگ میں شامل ہیں۔ ( تالیاں) جیسا کہ پولینڈ کو توڑا نہیں جا سکا، میں آج دنیا کے سننے کے لیے یہ اعلان کرتا ہوں کہ مغرب کو کبھی نہیں، کبھی نہیں توڑا جا سکے گا۔ ہماری اقدار غالب آئیں گی۔ ہمارے لوگ پھلیں پھولیں گے۔ اور ہماری تہذیب فتحیاب ہوگی۔ ( تالیاں) “