ریپر گلوکارہ مہاگنی جونز اپنے نغموں کے ذریعے دنیا کو آپس میں ملاتی ہیں۔[ویڈیو]

پاکستان کے اپنے ایک حالیہ دورے کے دوران ریپر گلوکارہ مہاگنی جونز کو یاد ہے کہ اردو کا ایک متاثرکن نغمہ سنتے ہوئے کس طرح اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ‘ریپر’ گلوکاری کی ایک صنف کا نام ہے۔

38 سالہ جونز اردو نہیں جانتیں۔ مگر انہوں نے اس نغمے کی موسیقی کو محسوس کیا۔ جب انہوں نے بینڈ سے اس نغمے کے موضوع کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں بتایا گیا کہ اس کا تعلق کسی کی محبت کے کھو جانے کے غم سے ہے۔

جونز نے کہا، “میں اس نغمے کے شعروں کو نہیں سمجھتی تھی لیکن یہ گہرے احساس اور شدید جذبات کے ساتھ  بہت کچھ  بیان کرتے ہیں۔ ان سے ایک مناسب ردّ عمل پیدا ہوا۔”

Mahogany Jones with upraised fist and microphone, on stage with three others (Courtesy of Mahogany Jones)
مہاگنی جونز مڈغاسکر میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ (Courtesy photo)

جونز نے گذشتہ سال موسم خزاں میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ‘ بیرون ملک امریکی موسیقی ‘ نامی پروگرام کے تحت پاکستان اور مڈغاسکر کا دورہ کیا۔ اس پروگرام کا مقصد موسیقی کی قوت کے ذریعے ثقافتوں کو آپس میں جوڑنا ہے۔

جونز نے دونوں ملکوں میں کنسرٹ منعقد  کیے اور موسیقی کی ایسی ورکشاپوں کا انعقاد کیا جن میں مقامی موسیقاروں کو ہپ ہاپ سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ  موسیقی کی اس صنف کو اُن کی موسیقی کے ساتھ  یکجا کیا گیا۔

جونز کے خیال میں ہپ ہاپ درماندہ لوگوں کی ثقافت ہے۔ اسے 1970 کے عشرے میں اُن سیاہ فام اور ہسپانوی لوگوں نے تخلیق کیا تھا جو نیویارک شہر کے جنوبی برونکس کے غربت زدہ علاقے میں رہتے تھے۔

Mahogany Jones sitting on bench (Courtesy of Mahogany Jones)
مہاگنی جونز کا کہنا ہے کہ ان کی موسیقی پرجن کا اثر ہے ان میں کامن، لارِین ہِل اور ایم سی لائٹ شامل ہیں۔ (Courtesy of Mahogany Jones)

نیویارک کے نواحی علاقے میں پلنے بڑھنے والی جونز کا کہنا ہے، ” یہ ستائے ہوئے لوگوں کی آواز ہے اور میرا خیال ہے اگر کسی کو باربار پسماندہ رکھا گیا ہے تو وہ رنگدار جلد والی عورتیں ہیں۔” وہ اب ڈیٹرائٹ میں رہتی ہیں جہاں وہ مقامی سکولوں اور ان فلاحی ادروں کے ساتھ  مل کر سر گرمِ عمل ہیں جو موسیقی، شاعری اور فنون کے استعمال سے نوجوان لوگوں کو زندگی کی مہارتیں سکھاتی ہیں۔

ایک بچی کی حیثیت سے انہوں نے گھریلو تشدد کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ انہوں نے مڈغاسکر میں ایک مقامی ریڈیو سٹیشن پر یہ کہانی سنائی۔ شو کے بعد عملے کا ایک مرد رکن ان کے پاس آیا اور اس نے ان کی جرات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی ایسے ہی ماحول میں پروان چڑھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے اس دورے کی سب زیادہ جذباتی گفتگو تھی۔

رباب کہلانے والے گِٹار اور کئی اقسام کے ڈھولوں سمیت، پاکستان میں جونز کے قیام کے دوران مقامی موسیقاروں نے اُنہیں اپنے ساز بجا کر دکھائے۔ ایک اور ورکشاپ میں صوفی مسلمانوں نے جونز کو وہ نغمے  سکھائے جنہیں وہ عبادت میں استعمال کرتے ہیں۔

جنس کی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے بارے میں پاکستان میں ایک ورکشاپ کے دوران، انہوں نے اپنا نغمہ “ہیل ٹو دی کوئین” پیش کیا، جس میں مردوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کا صرف  عورتیں ہونے کی حیثیت سے احترام کریں۔

نوٹ: ویڈیو انگریزی میں ہے۔

اسلام آباد میں ان کے اداس ترین لمحات اُس وقت آئے جب اُنہیں ایک مشہور موسیقار اور عالم دین، جنید جمشید کی ایک فضائی حادثے میں ہلاکت کا پتہ چلا۔ جونز اور ان کے بینڈ نے نوجوان پاکستانی موسیقاروں کے ساتھ مل کر جنید جمشید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے پاکستان کا غیرسرکاری قومی ترانہ کہلانے والا نغمہ، “دِل دِل پاکستان”  گایا۔

جونز نے کہا، “موسیقی ایک زبردست عالمی زبان ہے کیوںکہ یہ محبت کی زبان ہے۔ میں یہاں آپ کے درمیان کچھ  نہ کچھ سیکھنے کے لیے بھی آئی ہوں۔‘‘

یہ مضمون فری لانس مضمون نگار لینور  ٹی۔ ایڈکنز نے  تحریر کی۔