مذہب امریکیوں کے نزدیک اہم ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق 76 فیصد امریکیوں کا تعلق کسی نہ کسی مذہبی گروہ سے ہے۔ اور امریکہ میں کم و بیش 3,000 مذہبی گروہ ہیں۔
امریکیوں کی زندگیوں میں مذہب اور مذہبی عبادات کے تنوع کو جو مرکزی مقام حاصل ہے وہ اُس اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو وہ مذہبی آزادی کو دیتے ہیں۔ ابتدا ہی سے یہ نقطہ نظر امریکی شناخت کا ایک حصہ چلا آ رہا ہے کہ لوگ عبادت کرنے کے طریقے کا انتخاب اپنے ضمیر کے مطابق کر سکیں۔
دائمی حق
جیمز میڈیسن جزوی طور پر “بابائے آئین” کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ورجینیا کے رہنے والوں کے حقوق کے بارے میں اپنی ابتدائی تحریر میں یہ دلیل دی تھی کہ “مذہب کو بہرصورت ہر شخص کے یقین اور ضمیر پر چھوڑ دینا چاہیے … تاکہ وہ شخص اپنے یقین اور ضمیر کی آواز کے مطابق اس پر عمل کر سکے۔ اپنی نوعیت کے حوالے سے یہ ایک ایسا حق ہے جسے چھینا نہیں جا سکتا۔”
مذہبی آزادی کوامریکی آئین میں تحفظ حاصل ہے۔ آئین کی پہلی ترمیم کہتی ہے کہ “کانگریس کسی مذہب کے قیام یا اس کی ممانعت کا ہرگز کوئی قانون نہیں بنائے گی … ۔” تشکیل کی شق کے نام سے مشہور یہ الفاظ امریکہ میں آج کل جاری ایک مباحثے کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ یہ الفاظ عدالتوں کو کسی مذہب کی تائید کرنے اور کسی مذہب کی تائید نہ کرنے اور لوگوں کے اپنے مذہب کے آزادانہ اظہار کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کا پابند بناتے ہیں۔ عدالتوں نے سرکاری مقامات پر کھلے بندوں مذہبی اظہار کے خلاف فیصلے دینے کے ساتھ ساتھ سرکاری یونیورسٹیوں میں مذہبی کلبوں کی مدد کرنے کے لیے سرکاری فنڈ استعمال کرنے کے حق میں بھی فیصلے دیئے ہیں۔
اس سال کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے کہا، “ابتدا ہی سے امریکہ ایک ایسی جگہ رہا ہے جہاں عبادت کرنے کی آزادی کو عزیز جانا گیا۔ ہمارے اس عظیم براعظم پر ابتدائی آبادکاروں کو یہی امید نظر آئی اور اُس وقت سے لے کر آج تک ہمارے تمام شہریوں کی یہی وہ امید ہے جس کا ہمارے بہادر ترین جنگجووًں نے آج تک سب کے لیے تحفظ کیا ہے۔”