معذوریوں کے حامل افراد کے لیے باسہولت شہر

روزمرہ زندگی کے مسائل کا اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ذریعے حل، شہروں کو تمام لوگوں کے لیے زیادہ باسہولت اور آسان بنا دیتا ہے۔ (State Dept./Doug Thompson)

امریکہ میں ان شہروں کو بھرپور توجہ اور حکومت کی جانب سے وافر مالی وسائل مل رہے ہیں جہاں ایسی ٹیکنالوجی اور تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جن کی بدولت وہاں کے رہائشی اپنے امورِ زندگی زیادہ بہتر انداز سے نمٹا سکتے ہیں۔ اسی لیے انہیں ‘سمارٹ  سٹی’ یعنی باسہولتشہر بھی کہا جاتا ہے۔

ایسے شہروں کی بعض خصوصیات باآسانی نظر آ جاتی ہیں جن میں سائیکلوں کے مشترکہ استعمال کا نظام یا سڑک پار کرنے والے سگنل جن میں اشارہ تبدیل ہونے کے وقت کی نشاندہی سیکنڈوں میں ظاہر کی جاتی ہے۔ گو کہ دیگر خصوصیات ہمیں کم دکھائی دیتی ہیں، تاہم ان سے بھی شہروں کا نظام موثر طور پر چلانے میں مدد ملتی ہے۔ ٹریفک کے نمونے سے مطابقت رکھنے والا ٹریفک کنٹرول نظام اس کی نمایاں مثال ہے۔ عوامی مدد یا یوں کہیے کہ عوامی مدد سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے شہری حکومتوں کو لوگوں کی عادات اور ضروریات بہتر طور سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

Illustration of a man in wheelchair boarding a bus (State Dept./Doug Thompson)
(State Dept./Doug Thompson)

اگرچہ سمارٹ شہروں کے نظریے کا وجود 1980 کی دہائی سے چلا آ رہا ہے مگر گزشتہ دہائی کے دوران روزمرہ زندگی میں ٹیکنالوجی کے تیزتر انضمام کے ساتھ اس کی عملی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2025ء  تک یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں، سمارٹ شہروں کی مخصوص خدمات کی طلب میں 30 فیصد سے زیادہ اضافے کی توقع ہے۔

جسمانی معذوری کے حامل افراد کی مدد

‘G3ict ‘کے جیمز تھرسٹن اور ‘ورلڈ اینیبلڈ’ کے وکٹر پانیڈا، جنوبی افریقہ کے ایک ایسے شخص کا قصہ سناتے ہیں جس نے اپنے شہر کی حکومت کے لوگوں کو نقل و حمل کے سرکاری ذرائع تک رسائی کے لیے بنائے گئے ایک ایپ کو استعمال کیا۔ اس نے ایپ کے ذریعے وہیل چیئر کی سہولت والی بس پر نظر رکھی اور جونہی بس آئی وہ اپنے سٹاپ پر پہنچ گیا۔ مگر وہ بس میں سوار نہ ہو سکا اور جاتی ہوئی بس کو تکتا رہا کیونکہ ایپ میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اسے سیڑھیاں اتر کر بس تک پہنچنا ہو گا۔

اس طرح کی کہانیاں سن کر تھرسٹن اور پانیڈا نے ‘سمارٹ سٹیز فار آل’ جیسا قدم اٹھایا۔ اس کا مقصد شہری حکومتوں اور نجی صنعتی شراکت کاروں کی جامع سوچ اور شہری منصوبہ بندی کے بارے میں رہنمائی کرنا تھا۔

ایسے میں جب دنیا بھر کے شہر ٹیکنالوجی پر سرمایہ لگاتے ہیں، تو معذوریوں کے حامل افراد کے لیے شہری زندگی اور زیادہ  جامع صورت اختیار کر جاتی ہے۔

قابل رسا بنانا ہی عقلمندی ہے

دی سمارٹ سٹیز فار آل ٹول کٹ‘ [سب کے واسطے سمارٹ شہر:وسائل کے بارے میں راہنمائی] کا مقصد سمارٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے شہروں میں عدم مساوات کو دور کرنا اور شہروں کو معذوریوں یا غیر معذوریوں سے قطع نظر، ہر ایک کے لیے باسہولت اور رسائی کے قابل بنانا ہے۔

Illustration of a blind man crossing an intersection (State Dept./Doug Thompson)
(State Dept./Doug Thompson)

قابل رسا شہر اعانت کرنے والی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں اور رسائی کو شہر کے ڈیزائن، بنیادی ڈھانچے اور سہولتوں سے مربوط کرتے ہیں۔ رسائی  کسی قسم کی جدیدیت کی بجائے، سمارٹ شہروں کے ڈیزائن کا خاصا بنتی جا رہی ہے۔

جب 2016ء میں امریکہ کی ٹرانسپورٹیشن یعنی نقل و حمل کی وزارت نے ‘ سمارٹ سٹی چیلنج ‘ کے عنوان سے ایک مقابلے کا انعقاد کیا تو درخواست کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی معذوریوں کے حامل افراد سمیت، سب کے کی شمولیت میں اضافہ کیا جائے۔

ریاست مزوری کا شہر، کنساس سٹی فائنل میں پہنچنے والے اُن شہروں میں شامل ہے جنہوں نے رسائی کی جدید سہولیات کا آغاز کیا ہے۔

معذوریوں کے حامل افراد سے متعلق قانون پر عمل درآمد کی ذمہ دار شہر کی اہلکار، میگ کونگر کہتی ہیں، “مجھے اپنے شہر کے کیاسکوں [کھوکھوں] پر فخر ہے۔” گزشتہ چھ ماہ میں کنساس سٹی نے معلومات اکٹھی کرنے اور مہیا کرنے والے باہمی تعامل کے ڈیجیٹل کیاسکوں کا ایک جال بچھا دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ” کیونکہ اِن تک آسانی سے رسائی حاصل ہوتی ہے، لہذا قطع نظر اِس کے کہ آپ کی معذوری یا غیر معذوری کس سطح کی ہے، آپ یکساں طریقے سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔”

اگرچہ کیاسک کے ابتدائی ڈیزائن میں ٹچ سکرین اور ٹیکسٹ کے ذریعے بات کرنے کی سہولتیں موجود تھیں مگر کونگر اس سے آگے جانا چاہتی تھیں۔ وہیل چیئروں اور محدود حرکت کرنے والے افراد کو پیش آنے والی روزمرہ کی رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کیاسکوں کو کم بلندی پر لگایا جائے اور اِن میں آسانی سے دکھائی دینے والی ‘بیک لِٹ’ ٹچ سکرینیں لگائی جائیں۔ اِن سکرینوں پر معلومات کو آپ اوپر سے نیچے، سکرول کر کے دیکھ  سکتے ہیں۔

کونگر کہتی ہیں، “مجھے پتہ نہیں کہ آیا ہر شہر اِس نکتے کے بارے میں سوچتا ہے یا نہیں۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ محض آپ کا سکرین کو ٹچ کر نے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو حرکت کرنے کی کافی سہولت میسر ہے۔” کیاسکوں میں ایک آڈیو جیک  یعنی آواز سننے والے آلے کے لیے کنکشن ہوتا ہے تا کہ بینائی سے محروم صارفین، الفاظ کو آواز کی شکل دے کر مہیا کی جانے والی معلومات کو سننے میں شرمندگی محسوس نہ کریں۔ وہ اپنے ہیڈ فون کی تار جیک میں لگاتے ہیں اور نجی طور پرمعلومات سن لیتے ہیں۔

کنساس سٹی ایک عالمی رجحان میں شامل ہو چکا ہے: اٹلانٹک کے آر پار واقع PICASSO [پکاسو] پراجیکٹ نامی ایک تنظیم، سمارٹ شہروں کی ٹکنالوجی اور پالیسیوں سے متعلق بین الاقوامی شراکت داری کے موضوع پر سالانہ کانفرنس کی میزبانی کرتی ہے۔ اِس قسم کی سمارٹ شہروں کی شراکت داری کے ذریعے، ممکن ہے کہ ٹکنالوجی کے ذریعے نکالے گئے مسائل کے حل، دنیا بھر میں عام ہو جائیں جس سے شہری مراکز ہر فرد کے لیے قابلِ رسا ہو جائیں گے۔