ایلیہانڈرا مرکاڈو ایوالوز نے جنوری سے پہلے کبھی کمپیوٹر کوڈ کی ایک سطر بھی نہیں لکھی تھی اور نہ ہی اپریل سے پہلے انہوں نے کبھی کوئی روبوٹ بنایا تھا۔ جولائی سے پہلے وہ کبھی نکاراگوا سے باہر بھی نہیں گئیں تھیں۔
چنانچہ جولائی 2017 کے وسط میں جب یہ 17 سالہ پُرعزم انجینئر اور ان کے چار ساتھی اپنے روبوٹ ‘ڈیمن’ کے ساتھ، ‘پہلے گلوبل چیلنج’ میں اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے واشنگٹن پہنچے تو یہ بہت بڑی بات تھی۔
‘صاف پانی تک رسائی کی فراہمی’ اس چیلنج کا موضوع تھا۔ اس موقع پر طلبہ کے بنائے روبوٹوں کو پلاسٹک سے بنی گیندیں جمع کرنا اور پھر ان میں نیلی اور نارنجی گیندیں الگ کرنا تھیں جو بالترتیب صاف اور آلودہ پانی کو ظاہر کرتی تھیں۔ ڈھائی منٹ پر مشتمل دورانیے میں دونوں طرح کی گیندوں کو الگ الگ سوراخوں میں ڈال کر زیادہ سے زیادہ پوائنٹس کا حصول اس مقابلے کا ہدف تھا۔
ہر ٹیم کو منتظمین کی جانب سے مہیا کیے گئے پرزوں کی مدد سے روبوٹ بنانے کے لیے تین ماہ ملے تھے۔ مقابلے میں نیپال، کمبوڈیا، جاپان، میکسیکو، پیرو، ارجنٹینا، فرانس، اٹلی، برطانیہ، عراق، مالی اور یمن سمیت متعدد ممالک نے حصہ لیا۔

دو روزہ مقابلوں میں دنیا بھر سے 160 سے زیادہ ٹیموں نے شرکت کی۔ ان مقابلوں کی کا آغاز ‘سیگ وے’ کے موجد، ڈین کیمین نے کیا تھا اور اس کا مقصد مخففاً سٹیم کہلانے والے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے مضامین میں دلچسپی رکھنے والے ثانوی درجے کے طلبا و طالبات کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
یہ مقابلہ آغاز سے پہلے ہی میڈیا کی شہ سرخیوں کا اُس وقت موضوع بن گیا جب لڑکیوں پر مشتمل چھ رکنی افغان ٹیم کو ابتدا میں امریکی ویزا دینے سے انکار ہوگیا۔ بالآخر صدر ٹرمپ کی مداخلت سے ان کی امریکہ آمد ممکن ہوئی اور انہوں نے مقابلے میں شریک ہو کر دو میڈل جیتے۔

ہنڈراس سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ ایڈی ڈیونیسیو بوتستا ڈیاز کا کہنا ہے، “اگر یہ سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق آپ کا پہلا تجربہ ہو تو ایسا منصوبہ آپ کی تعلیمی راہ، مستقبل سے متعلق منصوبے اور آپ کی پوری زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے۔”
غریب دیہی علاقے میں رہنے والے بوتستا اور ان کے ساتھیوں نے مقابلے سے قبل تیاری کے لیے معمول کی پڑھائی کے بجائے روبوٹ پر کام کرنے کے لیے اپنے سکول کے پرنسپل سے اجازت لی تھی۔ یہ کوششیں رنگ لائیں اور ان کے روبوٹ ‘جارج’ نے مجموعی طور پر 40 ویں پوزیشن حاصل کی اور ہنڈراس کی ٹیم نے مقابلے میں بالائی درجہ حاصل کرنے والوں میں جگہ بنائی۔

یونیورسٹی کے پروفیسر اور کوسٹاریکا کی ٹیم کے استاد، ڈینیئل موروز کا کہنا تھا کہ اس مقابلے سے ان طلبا اور طالبات میں بھی سائنس سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے جو اس میں شریک نہیں ہوتے۔ موروز کی تین رکنی ٹیم نے اپنے “ڈی وین” نامی روبوٹ کی تیاری پر مہینوں کام کیا جس کے بعد انہوں نے اپنے ہم جماعتوں کے سوالات کے جوابات دیئے جو کچھ یوں تھے: “یہ کیا ہے؟”؛ “آپ لوگوں نے یہ کیسے بنایا؟”؛ کیا میں بھی آپ کے ساتھ شامل ہو سکتا ہوں؟”
موروز نے کہا، “ہم پہلے سے ہی اس تجربے کے وسیع اثرات دیکھ رہے ہیں۔”
مقابلے کے آخری روز وائٹ ہاؤس کی مشیر ایوانکا ٹرمپ نے افغانستان اور امریکہ سمیت چھ ممالک کی ٹیموں سے ملاقات کی جو تمام لڑکیوں پر مشتمل تھیں۔ اس موقع پر مس ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ‘میں آپ کی ایجادات، آپ کے کام اور سائنس ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے میدان میں عورتوں اور لڑکیوں کی ترقی سے بے حد متاثر ہوئی ہوں۔”

آخر میں مقابلے میں حصہ لینے والی چھ براعظمی ٹیموں میں شامل یورپی ٹیم کو، مجموعی طور پر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے پر پہلا انعام دیا گیا۔
انجینئرنگ کے ڈیزائن اور عالمگیر اتحاد جیسے زمروں میں میڈل بھی دیے گئے۔ اگرچہ بیشتر ٹیمیں میڈل تو نہ جیت پائیں تاہم وہ یہاں سے گراں قدر ہارڈویئر کا منفرد نمونہ اپنے ساتھ یقیناً لے کر گئیں۔ کوسٹاریکا کی ٹیم کے استاد موروز نے بتایا، “وہ روبوٹ اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔”