ٹلرسن کا دورہ یورپ: اٹلانٹک کے آرپار اتحادوں کو مضبوط بنانا

وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے ایک ہفتے پر مشتمل یورپ کے  دورے کے دوران اپنے اتحادوں سے متعلق امریکی وابستگی کی ازسرنو توثیق کی۔ اس موقع پر امریکہ نے حکومتوں کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے روکنے کی ایک عالمی کوشش کے آغاز میں مدد دی۔

ٹِلرسن نے اپنے دورے کا اختتام 27 جنوری کو پولینڈ میں کیا جہاں انہوں نے وارسا کی یہودی بستی کے ہیروز کی یادگار (اوپر) پر پھول چڑھائے۔ ہولوکاسٹ کی یاد کے عالمی دن اور نازیوں کے موت کے کیمپ، آشوٹز کی آزادی کی 73ویں سالگرہ کے موقع پر اس تقریب میں انہوں نے کہا، “ہم برائی کے مقابلے میں کبھی بھی — کبھی بھی لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر وجود میں آنے والے مغربی اتحاد نے سبھی کی سلامتی کو یقینی بنانے کا عہد کر رکھا ہے تا کہ یہ سب کچھ  دوبارہ نہ ہونے پائے۔”

21 سے 27 جنوری تک وزیرخارجہ کے اس دورے کی جھلکیاں درج ذیل ہیں:

وارسا

Two men at lecterns with Polish and U.S. flags behind them (State Dept.)
ٹلرسن (بائیں) اور پولینڈ کے وزیرخارجہ جیک زاپوٹووکز وارسا میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ (State Dept.)

وزیرخارجہ کی حیثیت سے پولینڈ کے پہلے دورے میں ٹِلرسن نے نیٹو کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں پولینڈ کی کوششوں کو سراہا جن میں جی ڈی  پی کے دو فیصد کو دفاعی مقاصد کے لیے مختص کرنا اور یوکرین کی جانب سے اپنی خودمختاری واپس لینے کی کوششوں کی حمایت کرنا شامل ہے۔

پولینڈ اور امریکہ دونوں کو یورپ میں ایک مجوزہ پائپ لائن کے بارے میں تشویش ہے جس کے بارے میں ٹلرسن نے کہا کہ اس سے یورپ کا توانائی کے حوالے سے مجموعی تحفظ کمزور پڑے گا اور “روس کو توانائی کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کا ایک اور ذریعہ ہاتھ آ جائے گا۔”

وزیرخارجہ نے امریکہ اور پولینڈ میں باہمی تعلقات کی طویل تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، “ماضی کی طرح امریکہ کو آج بھی پولینڈ کے عوام کا ساتھ دینے پر فخر ہے اور ہم مستقبل میں بھی ایسا ہی کریں گے۔”

ڈیووس

People sitting in armchairs and talking (© AP Images)
25 جنوری کو ڈیووس میں صدر ٹرمپ اپنی انتظامیہ کے ارکان کے ہمراہ برطانوی وزیراعظم ٹیریسا مے سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

وزیرخارجہ نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم پر صدر ٹرمپ کے ہمراہ عالمی اور کاروباری رہنماؤں کے ساتھ  ملاقاتوں میں شرکت کی۔ 26 جنوری کو جمع ہونے والے رہنماؤں کو صدر ٹرمپ نے بتایا،  “امریکہ کاروبار کے لیے کھلا ہے۔”

وزیرخارجہ اور صدر نے نجی طور پر برطانوی وزیراعظم ٹیریسا مے اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقاتیں کیں۔ ٹِلرسن عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی اور کرد وزیراعظم نوشیرواں برزانی سے بھی ملے۔

پیرس

Rex Tillerson at lectern, people seated behind him (State Dept.)
پیرس میں ٹلرسن نے کہا کہ روس اسد حکومت کی جانب سے مشتبہ کیمیائی حملوں کا برابر کا ذمہ دار ہے۔ (State Dept.)

پیرس میں وزیرخارجہ نے عالمی برادری کو کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا خاتمہ کرنے کا کہا۔ 23 جنوری کو امریکہ نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے والوں کے سزا سے بچ جانے کے خلاف عالمی شراکت کا آغاز کیا۔

شام میں بشارالاسد کی حکومت نے باغیوں کے زیرقبضہ علاقے مشرقی غوطہ میں شہریوں کے خلاف مشتبہ طور پر کلورین گیس استعمال کی ہے۔ اس حوالے سے وزیرخارجہ نے کہا کہ روس اسد حکومت کے کیمیائی حملوں میں برابر کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا، ” اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ روس نے اپنے شامی اتحادی کو تحفظ  دے کر اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔”

انہوں نے کہا،  “ہم ذمہ دار اور مہذب اقوام کی برادری سے کہتے ہیں کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ختم کر دے۔ مشرقی غوطہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بقیہ دنیا بھی دیکھ  رہی ہے۔” 25 سے زائد ممالک نے اس شراکت میں شمولیت اختیار کی ہے۔

لندن

Boris Johnson and Rex Tillerson standing on podium in front of people holding microphones (© Jack Hill/WPA/Getty Images)
لندن میں ٹِلرسن (دائیں) اور برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن سوالات کا جواب دے رہے ہیں۔ (© Jack Hill/WPA/Getty Images)

لندن میں وزیرخارجہ ٹِلرسن نے امریکہ اور برطانیہ میں خصوصی تعلق کا اعادہ کیا۔ ٹِلرسن نے شام اور یمن کے بحران کے علاوہ  دونوں ممالک کے مشترکہ کاروباری ناطوں سمیت اپنے ہم منصب، بورس جانسن کے ساتھ متعدد موضوعات پر تبادلہ خیالات کیا۔

ٹِلرسن نے کہا، “ہم اس تعلق کی قدر کرتے ہیں اورمیں  اپنے ساتھ  بورس کے ذاتی تعلق اور اکٹھا مل کر اِن اور دیگر بہت سے مسائل پر ہم جو کام کرتے ہیں اُس کی قدر کرتا ہوں۔”

جانسن نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک میں مضبوط کاروباری تعلقات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “ایسے معاشی تعلق کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔”