
وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے 28 نومبر کو کہا کہ روسی جارحیت سے پیدا ہونے والے نئے اور دوبارہ ابھرنے والے پرانے خطرات، دہشت گردانہ خطرات، سائبر حملے اور دیگر چیلنجوں کے پیش نظر، یورپ کے ساتھ امریکہ کا عزم آہنی ہے۔
نئے اور دوبارہ ابھرنے والے پرانے خطرات کے پیش نظر، بحراوقیانوس کے آر پار ایک مضبوط شراکتداری کی اہمیت کا خاکہ بیان کرتے ہوئے اپنے ایک جامع خطاب میں، ٹِلرسن نے یورپ سے لے کر مشرق وسطٰی، افغانستان اور شمالی کوریا تک درپیش مشکلات کا احاطہ کیا۔
انہوں نے اتحاد کے ہدف کو پورا کرنے کی خاطر نیٹو کے رکن ممالک البانیہ، کروشیا، فرانس، ھنگری اور رومانیہ کی اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے کے حالیہ وعدے کی تعریف کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر اراکین کو بھی اس مقصد کو بہرصورت پورا کرنا چاہیے۔
ٹِلرسن نے کہا، “امریکہ یورپ کے ساتھ اپنے پائیدار تعلقات جاری رکھنے میں بدستور پُرعزم ہے۔ یورپی اتحادیوں کے ساتھ سلامتی کا ہمارا عزم آہنی حیثیت کا حامل ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ “یورپی اقوام کو اپنے سلامتی کے چیلنجوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ذمہ داریاں قبول کرنا چاہییں۔ ہماری آزادی اور سلامتی خطرے میں ہیں۔”
ٹِلرسن نے کہا امریکہ اور یورپ میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے روس نے بدنیتی پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کیے اور “آزادانہ انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے سائبر حملے کیے اور غلط معلومات پھیلانے کی مہمیں چلائیں۔” اس کے علاوہ اپنے ہمسائے یوکرین پر حملہ کیا اور سفارت کاروں کو ہراساں کیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کے معاملے میں روس پر عائد اقتصادی پابندیاں اُس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک روس اُن اقدامات کا رد نہیں کرتا جن کی وجہ سے یہ [پابندیاں] لگائی گئی ہیں۔”

ٹِلرسن نے کہا، “یوکرین میں ہونے والی جنگ کا جس میں ابھی تک لوگ مر رہے ہیں بہرصورت خاتمہ ہونا چاہیے۔” کوئی بھی حل اس وقت تک ” ناقابل قبول ہوگا جب تک ایک مکمل طور پر آزاد، خود مختار اور علاقائی طور پر یکجا یوکرین وجود میں نہیں آ جاتا۔”
وزیرخارجہ 5 اور 6 دسمبر کو نیٹو اور 7 اور 8 دسمبر کو یورپ میں سکیورٹی اور تعاون کی تنظیم کے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کریں گے۔ یورپ میں جو وہ پیغام دیں گے اُس کا پیشگی جائزہ لیتے ہوئے، ٹِلرسن نے عالمی خطرات اور مشکلات کی ایک اچھی خاصی تعداد کا خاکہ پیش کیا۔
- شام: امریکہ اور اس کے اتحادی ایک ایسے سیاسی حل کی خاطر شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں جس میں صدر بشارالاسد کے لیے نئی حکومت میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
- ایران: امریکہ “مجموعی ایرانی خطرے” سے نمٹنے کے لیے پُرعزم ہے۔ “ہمارا اپنے یورپی شراکتداروں سے یہ کہنا ہے کہ وہ” ہمارے ساتھ محض جوہری سمجھوتے کے لیے ہی نہیں بلکہ “ایران کے کینہ پرور رویے کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑے ہوں۔”
- داعش: عراق اور شام میں مکمل خاتمے کے دہانے پر پہنچی ہوئی داعش نئے مقامات پر قدم جمانے کی تلاش میں ہے اور اس کا خطرہ “ہمارے اپنے ملک اور دیگر ممالک میں بدستور موجود رہے گا۔”
- شمالی کوریا: امریکہ اور یورپ میں اس کے شراکت دار پیانگ یانگ حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے اور جوہری ہتھیاروں سے پاک جزیرہ نما کوریا کی تلاش میں مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مطلق العنان قومی ریاستوں، بنیاد پرست اسلامی دہشت گردوں اور افراتفری کے حریص ہیکروں سے درپیش خطرات کے پیش نظر، آزاد اقوام کو آزادی کے تحفظ اور مغربی آدرشوں کے لیے مستعد رہنا چاہیے۔
ٹِلرسن نے کہا، “ہم اِن آزادیوں کی حفاظت کرنے کی اِس عظیم ذمہ داری میں ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔”