وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن کے ایشیا کے پہلے سرکاری دورے کا آغازاُن کے جاپان کے دورے سے ہوا۔
امریکہ کے اعلٰی ترین سفارت کار نے 16 مارچ کو جاپان کے وزیرخارجہ، فومیو کیشیدہ کے ہمراہ ٹوکیو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “ہمارا دیرینہ اتحاد ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں امن، خوشحالی اور آزادی کے لیے وقف ہے۔
ٹِلرسن کا دونوں ممالک کے درمیان جاری سلامتی اور معاشی مفادات کے بارے میں تبادلہِ خیالات کرنے کے لیے جاپانی وزیر اعظم، شِنزو ایبے سے بعد میں، اُسی دن ملاقات کا وقت بھی طے تھا۔
ٹِلرسن نے کہا، “ہمارے انتہائی گہرے معاشی روابط ہیں اور ہم ایک ایسے تعلق کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے کام کرنا جاری رکھیں گے جو ہمارے دونوں ملکوں کے حق میں منصفانہ ہو۔”
کیشیدا نے کہا کہ اپنی ملاقات کے دوران وہ اور ٹِلرسن “بہت بے تکلف اور ہم آہنگ تھے” اور اُنہیں توقع ہے کہ اُسی دن بعد میں وہ “معاشی پہلوؤں سمیت علاقائی حالات پر زیادہ مفصل تبادلہِ خیالات کریں گے۔”
#SecState Tillerson met w/ FM Kishida of @MOFAJapan_en to reaffirm the U.S.-Japan alliance & discuss our regional and global priorities. pic.twitter.com/fGrJWA2s6e
— アメリカ大使館 (@usembassytokyo) March 16, 2017
فروری میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے کے لیے جاپان کے وزیراعظم شِنزو ایبے کے امریکہ کے دورے کے بعد یہ دورہ ہو رہا ہے۔ اُس وقت ٹرمپ نے کہا تھا، “ہم دونوں ممالک کے درمیان مضبوط بندھن ہیں اور ہماری دونوں اقوام کے درمیان دوستی انتہائی گہری ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد امریکہ نے جاپان کے ساتھ مضبوط روابط کو برقرار رکھا ہے۔
جاپان امریکہ کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور امریکہ میں جاپانی کمپنیوں میں 839,000 سے زائد افراد ملازم ہیں۔ مزید برآں، جاپان 50,000 سے زائد امریکی فوجیوں اور 50,000 سویلین افراد اور اُن کے اہالیانِ خانہ کا گھر ہے۔
وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھی اس سال کے اوائل میں وزیر دفاع کی حیثیت سے مشرقی ایشیا کا اپنا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا جس کے دوران وہ جنوبی کوریا اور جاپان گئے تھے۔
جاپان کے اپنے دورے کے بعد، ٹِلرسن 17 مارچ کو جنوبی کوریا جائیں گے اور اگلے روز چین کے دورے سے اپنے اس دورے کا اختتام کریں گے۔
