صدر ٹرمپ نے امریکہ کے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر نیل گورسچ کو نامزد کیا ہے۔ نیل گورسچ ایک تجربہ کار وفاقی جج ہیں۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے قانون کے سکول سے گریجوایشن کی ہے اور قانونی فلسفے میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
وائٹ ہاؤس سے ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی ایک تقریب میں ٹرمپ نے 31 جنوری کو کہا، ” جج گورسچ عالیشان قانونی صلاحیتوں، بہترین دماغ اور زبردست نظم و ضبط کے مالک ہیں اور انہیں دونوں سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔”
ریاست کولوریڈو کے رہنے والے گورسچ آج کل اپیلیں سننے والی ایک [وفاقی] عدالت کے جج ہیں اور ان کے دائرہ اختیار میں کولوریڈو، کنسس، نیو میکسیکو، یوٹاہ، وائیومِنگ اور اوکلاہوما کی ریاستیں آتی ہیں۔
گورسچ کا کہنا ہے، “جب ہم جج، ججوں والا لباس زیب تن کرتے ہیں تو اس سے ہم زیادہ زیرک نہیں ہو جاتے تاہم یہ ہمیں ایک یاد دہانی ضرور کراتا ہے کہ ہم سے کیا توقعات وابستہ ہیں: یعنی غیرجانبداری اور آزادی، باہمی احترام اور جراًت۔”
امریکہ کی اعلٰی ترین عدالت میں یہ آسامی 13 فروری 2016 کو سپریم کورٹ کے جسٹس انٹونِن سکالیا کے انتقال کے بعد خالی ہوئی ہے۔
Here's a photo of Gorsuch and Scalia fishing pic.twitter.com/KD3Qd89w4U
— The Vice President (@MikePenceVP) February 1, 2017
گورسچ نے 1990 کی دہائی میں اس وقت کے جج، جسٹس بائرن وائٹ کے ساتھ اور بعد میں جسٹس انتھونی ایم کینیڈی کے ساتھ کلرک کے طور پر کام کیا۔ آخرالذکر اب بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔
اگر گورسچ کی توثیق ہوجاتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کے جج بننے والے پہلے ایسے سابقہ کلرک ہوں گے جو ایک ایسے جج کے ساتھ عدالت میں بیٹھیں گے جس کے ساتھ وہ بحیثیت کلرک کام کر چکے ہیں۔
گورسچ اور ان کی اہلیہ اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ کولوریڈو میں رہتے ہیں۔ گورسچ کھلی فضا میں گھومنے پھرنے والے شخص ہیں اور مچھلی کے شکار، کوہ پیمائی اور سکی اِنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ اور ان کے اہلخانہ اپنے ایک چھوٹے سے فارم پر گھوڑے، مرغیاں اور بکریاں پالتے ہیں۔
توثیق کا عمل
کابینہ کی تقرریوں کی طرح سپریم کورٹ کے نامزد کردہ افراد کے لیے بھی امریکی سینیٹ کی توثیق لازمی ہوتی ہے۔
اس ووٹ سے پہلے نامزدگان سینیٹ کی عدلیہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور اپنی پیشہ وارانہ زندگیوں، قانونی فلسفوں اور امریکی آئین کی پاسداری کے ساتھ اپنے عزم سے متعلق سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔
نامزدگی پر ووٹنگ کرنے سے پہلے پوری سینیٹ عدلیہ کمیٹی کی رپورٹ پر غوروخوض کرتی ہے۔ اس تقرری کی توثیق کے لیے سینیٹ میں ووٹوں کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ (تاہم سینیٹ کے قوانین کے تحت اس ووٹنگ کی خاطر، “سُپر میجارٹی” یعنی مجموعی ووٹوں کی دو تہائی تعداد والی اکثریت کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔)

امریکہ اس طریقے کو کیوں اپناتا ہے؟
زیادہ تر دیگر وفاقی ججوں کی طرح سپریم کورٹ کے ججوں کا، آئین کے الفاظ میں “اچھے رویے کے دورانیے” کے لیے تقرر کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاحیات جج رہتے ہیں تاوقتیکہ اُنہیں سینیٹ کسی غیرقانونی یا نامناسب رویے کی وجہ سے اُن کے عہدے سے برطرف نہ کردے۔
سپریم کورٹ کے جج تاحیات خدمات اس لیے سرانجام دیتے ہیں تاکہ اُن کو اپنی آزادی برقرار رکھنے میں مد مل سکے۔ صدر اور کانگریس کے ممبران کے برعکس جنہیں عوام منتخب کرتے ہیں اور جن کی وہ خدمت کرتے ہیں اور اُن کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں، ججوں کو امریکہ کے آئین اور قوانین کو جواب دینا ہوتا ہے۔ ججوں کی اپنے منصب پر تاحیات تقرری ایسے فیصلے کرنے میں ان کی مدد کرتی ہے جو قانونی طور پر درست مگر سیاسی لحاظ سے غیر مقبول ہوتے ہیں۔
آئین صدر کو، جسے عوام منتخب کرتے ہیں ججوں کی نامزدگی کا اختیار دیتا ہے لیکن حکومت کی مختلف شاخوں کے مابین نگرانی اور توازن کو برقرار رکھنے اور یہ یقینی بنانے کی خاطر سینیٹ کی توثیق درکار ہوتی ہے کہ نامزد کردہ فرد کو وسیع عوامی تائید حاصل ہے۔
یہ نظام بلند معیار کے آزاد ججوں کو یقینی بناتا ہے۔