اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کے بانی اصولوں کے ساتھ امریکی عزم کا اعادہ کیا، تمام اقوام کو سرکش حکومتوں کا سامنا کرنے لیے اکٹھا ہونے کا کہا اور قومی حاکمیت کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے نیویارک میں اکٹھے ہونے والے عالمی لیڈروں سے کہا، ” اپنے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں مکمل ہم آہنگی اور اتحاد کے ساتھ، تمام لوگوں کے لیے ایک محفوظ اور پرامن مستقبل کی تعمیر کے لیے اکٹھے کام کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ہماری کامیابی کا انحصار ایسی مضبوط اور آزاد اقوام کے اتحاد پر ہے جو اپنی سلامتی، خوشحالی اور اپنے اور دنیا کے امن کو فروغ دینے کے لیے اپنی حاکمیت کا پاس کرتی ہیں۔”
“تمام قوموں کے لیے یہ وقت کِم حکومت کو اس وقت تک تنہا کرنے کے لیے اکٹھے ہوکر کام کرنے کا ہے جب تک یہ اپنا مخاصمانہ رویہ تبدیل نہیں کرتی۔”
ٹرمپ نے کہا کہ امن کو شدید ترین خطرہ “شمالی کوریا کی اُس اخلاق باختہ حکومت” سے لاحق ہے جو اپنے آپ کو ہتھیاروں اور میزائلوں سے مسلح کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ” امریکہ کے پاس بہت بڑی طاقت اور صبر ہے۔ لیکن اگر اسے اپنا یا اس کے اتحادیوں کا دفاع کرنے پر مجبور کیا گیا تو ہمارے پاس شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچے گا۔”
صدر نے کہا، ” امید ہے کہ اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ .…اقوام متحدہ کا بعینہی یہی مقصد ہے۔ شمالی کوریا کے لیے یہ وقت اس بات کا احساس کرنے کا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ قابل قبول مستقبل کی واحد راہ ہے۔”

ٹرمپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ” پوری دنیا ہمارے اس مطالبے میں شامل ہوکہ ایرانی حکومت موت اور تباہی کے پروگراموں کو ختم کرے۔” تہران کی حکومت کو “دہشت گردوں کی حمایت بند کرنا چاہیے، اپنےعوام کی خدمت کرنے کا آغاز کرنا چاہیے اور اپنے ہمسایوں کی خودمختاری کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ ”
انہوں نے کہا، ” پوری دنیا سمجھتی ہے کہ ایران کے اچھے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔”
“غاصب حکومتیں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں اور وہ دن آئے گا جب لوگوں کے سامنے انتخاب کی راہ ہوگی۔ کیا وہ غربت، خونریزی اور دہشت کی راہ پر گامزن رہیں گے؟ یا کیا ایرانی لوگ اپنی قوم کی تہذیب، ثقافت اور دولت کے اُس مایہ ناز مرکز کی جانب لوٹیں گے جہاں ایک بار پھر لوگ خوش اور خوشحال رہ سکتے ہوں؟”
ٹرمپ نے وینیزویلا کے سوشلسٹ صدر، نکولس مادورو پر “ایک خوشحال قوم پر ایک ایسا ناکام نظریہ مسلط کرکے” تباہ کرنے کا الزام لگایا “جس کو جہاں کہیں بھی آزمایا گیا اس نے وہاں غربت اور مصائب پیدا کیے۔”
صدر نے اپنی تقریر کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ اُنہیں اپنے شہر میں ہونے اور بین الاقوامی برادری سے خطاب کرنے پر فخر ہے۔
انہوں نے کہا، ” 70 برسوں سے زائد، جنگ اور امن کے وقتوں میں قوموں، تحریکوں، اور مذاہب کے لیڈر اس اسمبلی میں آتے رہے ہیں۔” اُنہوں نے اسے “عظیم مواقع اور شدید خطرے کا وقت” قرار دیتے ہوئے کہا، ” یہ قطعی طور پر ہم پر منحصر ہے کہ آیا ہم دنیا کو نئی بلندیوں تک لے جاتے ہیں یا اس کو بوسیدگی کی کسی وادی میں گرنے دیتے ہیں۔”
شیئر امریکہ کے مصنف کرسٹوفر کونیل نے اس مضمون کی تحریر میں مدد کی۔