جب طالب علم، ناول Last Train to Istanbul [استبول کے لیے آخری ٹرین] پر گفتگو کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تو اُنہیں بڑی حیرت ہوئی۔ ناول کی شکل میں تحریر کی گئی یہ ایک ایسی سچی کہانی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ترک سفارت کاروں نے ترک اور فرانسیسی یہودیوں کو بچانے میں کس طرح مدد کی۔
ان کی ہم جماعت، زرّین سیار کو جانیں بچانے کی اس ڈرامائی کوشش کا ذاتی تجربہ ہے۔ زرین کے والد کا یہودیوں کی جان بچا کر فرار ہونے کی منصوبہ بندی کرنے اور اس کا انتظام کرنے میں مرکزی کردار تھا۔
25 سال قبل استنبول سے واشنگٹن آنے والی سیار نے بتایا کہ ان کے والد نے کِس طرح تمام سادہ پاسپورٹ جمع کرنے اور انہیں لوگوں کی فرضی تُرک شناخت بنانے کے لیے استعمال کرنے میں پیرس کے تُرک سفارت خانے میں کام کرنے والے سفارتکاروں کی مدد کی۔ وہ بتاتی ہیں، “یہ سرکاری پالیسی نہیں تھی۔”

جیسا کہ ناول میں بتایا گیا ہے، سیار کے والد نے (جنہیں ناول میں فیرٹ کا نام دیا گیا ہے)، ان لوگوں کو جنہیں تُرک شہریوں کی شناخت دی گئی تھی، اکٹھا کیا اور ان سب کو ٹرین میں سوار کرا دیا جو براستہ برلن ترکی جاتی تھی۔
انھوں نے اپنے ہم جماعتوں کو بتایا، “مشکل ترین کام ان لوگوں کے لیے نئے نام تلاش کرنے” اور ہر ایک پناہ گزین کے لیے کوائف تخلیق کرنے تھے۔
“مجھے یاد ہے کہ میں نے اُن سے پوچھا، ‘آپ نے ایسا کیوں کیا؟’ کیونکہ اس وقت وہ صرف 25 برس کے تھے۔ انھوں نے جواب دیا، ‘ایک انسان کی حیثیت سے میرے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔'”
“ادب کے ذریعے مشرقِ وسطٰی کی سیاست کو سمجھنا: ترکی” کے عنوان سے دو ہفتوں میں ایک مرتبہ ہونے والی کلاس کو پڑھانے والی، ہِبا الشاذلی کا کہنا ہے کہ سیار نے جو کچھ بتایا وہ “یقیناً غیر متوقع تھا، تاہم ہمارے علم میں یہ ایک عظیم اضافہ ہے۔
یہ کلاس اُن سلسلے وار کورسوں کا ایک حصہ ہے جو الشاذلی مشرقِ وسطیٰ کے ادب پر واشنگٹن میں پالیٹکس اینڈ پروز نامی کتابوں کی دکان میں پڑھاتی ہیں۔ ان میں خطے کے کسی ایک ملک کے ناولوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ تاہم یہ کلاس کسی باقاعدہ ڈگری پروگرام کا حصہ نہیں ہے۔ طلبا خطے میں اپنی دلچسپی کی بنا پر اس میں شریک ہوتے ہیں۔

الشاذلی، حکومت کے مضمون کی پروفیسر ہیں اور واشنگٹن کے علاقے میں دو یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کی ادب سے محبت ان کورسوں کی ابتدا کا باعث بنی۔ الشاذلی کا کہنا ہے، “ادب کے ذریعے آپ کسی بھی معاشرے کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔” میرا مقصد یہ ہے کہ میں ہر معاشرے کی سیاست، معیشت، تاریخ اور معاشرت کو جاننے کے لیے ناولوں کو استعمال کروں۔
اس کورس کے شرکاء میں بہت سے ایسے ریٹائرڈ لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس پوسٹ گریجویٹ ڈگریاں ہیں، اور بین الاقوامی پس منظر رکھتے ہیں۔
الشاذلی کا کہنا ہے، “مجھے یہ بڑا اچھا لگتا ہے کہ اُن کے پاس مہارتیں ہیں۔ اس طرح بات چیت زیادہ بامعنی ہوجاتی ہے۔”
الشاذلی کا اگلا کورس مصر اور نجیب محفوظ کی تصنیفات پر مشتمل ہوگا۔